سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا ہے کہ ایوانِ بالا کا الیکشن آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ہوگا۔ انتخابی عمل سے کرپشن ختم کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کے لیے اقدامات کرسکتا ہے۔ یہ اپنے اختیارات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتا ہے۔ بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں اور پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کر سکتا ہے جب کہ تمام ادارے الیکشن کمیشن کے احکامات کے پابند ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سینٹ الیکشن میں ایسے بیلٹ پیپر استعمال کیے جاسکتے تھے جس پر کوڈ بار یا کیو آر بار (Quick response cod bar) لگے ہوں۔ اس طریقۂ کار میں بھی یہ خرابی ہے کہ اگر ایک بار سینٹ انتخابات میں حصہ لینے والوں کا نام مع کوڈ بار ظاہر ہوگیا، تو ہر ووٹر کی شناخت کا عمل مکمل کیا جاسکتا ہے کہ اُس نے اپنا ووٹ کس کے حق میں استعمال کیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت سینٹ کے الیکشن کرا دیے اور دلیل پیش کی کہ وقت کی کمی کی وجہ سے جدید ٹیکنالوجی سے استعفادہ ممکن نہ تھا۔ پارٹیوں کے مطابق کہ صوبہ سندھ، صوبہ خیبر پختونخوا، صوبہ پنجاب اور صوبہ بلوچستان میں پارٹیوں کو متناسب نمائندگی کے مطابق ان کے نمائندے کامیاب ہوگئے ہیں۔ البتہ سندھ میں جی ڈی اے کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف کے چھے ممبران نے ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔
قومی اسمبلی اسلام آباد کی جنرل نشست پر الیکشن سے حکومتی پارٹی مطمئن نہیں۔ قومی اسمبلی میں تحریکِ انصاف اور اتحادی پارٹیوں کے ارکان کی تعداد 180 اور اپوزیشن اتحادی جماعتوں (پی ڈی ایم) کے ارکان کی تعداد 160 ہے۔ ایوانِ بالا کے جنرل سیٹ کے مقابلے میں حکومتی اتحاد کے نامزد کردہ امیدوار عبد الحفیظ شیخ کو 164 اور حزبِ اختلاب (پی ڈی ایم) کے نامزد کردہ امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کو 169 ووٹ ملے۔ انتخابی عمل میں سات ووٹ مسترد بھی ہوئے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے اپوزیشن امیدوار سید یوسف رضا گیلانی حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ سے پانچ ووٹ زیادہ لے کر کامیاب قرار پائے۔ انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی اتحاد کے 9 ارکانِ قومی اسمبلی نے اپنا ووٹ اپوزیشن امیدوار کے حق میں استعمال کیا جب کہ سات ارکانِ اسمبلی نے (غلطی سے یا قصداً) اپنا ووٹ ضائع کیا۔
اب اسلام آباد کی ایک جنرل نشست کی ہار جیت پر حکومت اور اپوزیشن مورچہ زن ہو کر ایک دوسرے کے خلاف گولہ باری میں مصروف ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران میں سوشل میڈیا پر پی ڈی ایم کے نامزد امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے حیدر علی گیلانی کی ایک ویڈیو وائرل اور ٹی وی چینلوں پر ٹیلی کاسٹ ہوئی جس میں وہ حکومتی ارکانِ اسمبلی کو سید یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے اور یا حکومتی امیدوار کو ووٹ دینے کے بجائے خراب کرنے کے طریقے سکھاتے ہوئے پایا گیا۔انتخابی نتائج سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی ارکانِ اسمبلی میں سے بعض نے سید یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا اور بعض نے اپنا ووٹ ضائع کر دیا۔ کوئی عقل کا اندھا بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہوگا کہ وفاقی وزیر شہریار آفریدی نے غلطی سے غلط ووٹ پول کیا ہوگا۔ ایک عام ووٹر بھی جب ووٹ ڈالنے جاتا ہے، تو وہ بڑے احتیاط سے اپنا ووٹ پول کرتا ہے، مبادا ووٹ ضائع نہ ہو جائے۔ لیکن وفاقی وزیر شہریار آفریدی سے ووٹ ضائع ہو جاتا ہے اور یہی بلنڈر دوسرے ووٹرز نے بھی کیا۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ نوحکومتی ارکان نے اپنے ضمیر کے مطابق سید یوسف رضا گیلانی کے حق میں ووٹ استعمال کیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ پیسا نہیں ٹکٹ چل گیا ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ پیسے کے زور پر ہمارے ارکانِ اسمبلی کو خریدا گیا ہے۔ ہم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجوع کریں گے، تاکہ وہ سینٹ الیکشن میں ہونے والی ہارس ٹریڈنگ کی تحقیقات کرکے اس دھندے میں ملوث افراد کو ہمیشہ کے لیے نا اہل قرار دیں۔
اب الیکشن کمیشن کیا فیصلہ کرتا ہے یہ تو وقت آنے پر معلوم ہوگا۔ الیکشن میں ہار جیت جمہوریت کا تقاضا ہے، لیکن ہمارے ہاں ہارنے اور جیتنے والے دونوں ایک دوسرے پر دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگاتے رہے ہیں اور لگا بھی رہے ہیں۔ پاکستان کے ہر قومی اور سینٹ الیکشن میں انتخابی قوانین کی کمزوریوں سے سیاسی پارٹیاں فائدہ اُٹھا کر جمہوری عمل کو مزید نقصان پہنچاتی ہیں۔ ہم پاکستان کی آزادی سے اب تک جمہوری اذہان پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے اکثر جمہوریت پٹڑی سے اتر جاتی ہے۔ جمہوریت کے علم بردار سیاست دانوں نے جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لیے اس کو کاروبار بنانے کے ساتھ اس کو برادریوں، لسانی اور فرقہ وارانہ نظریوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ جہاں سیاست کاروبار بن جائے، تو وہاں بازار اور منڈیاں لگیں گی اور وہاں گھوڑوں کی خرید و فرخت بھی ہوگی۔ حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار والے دونوں الیکشن کے بعد کچھ عرصے تک دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ کا رونا روکر خاموش ہوجاتے ہیں۔ پانچ سال تک حزبِ اقتدار و اختلاف دونوں کو دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ یاد نہیں رہتی۔ الیکشن کے آتے ہی انھیں ایک بار پھر دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ کی بیماری ستانے لگتی ہے، لیکن علاج کرنے کو دونوں تیار نہیں۔ کیوں کہ اسی میں دونوں کا فائدہ ہے۔ جہاں ارکانِ اسمبلی اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں، قواعد و ضوابط اور آئین کی پاس داری کا حلف اُٹھانے کے باوجود بھی اُس پر عمل درآمد کرنے کو تیار نہیں ہوتے، تو وہاں جدید ٹیکنالوجی کیا کرپائے گی؟ نظریاتی اور حلف کی پاس داری کرنے والوں کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ووٹ اوپن بیلٹ پیپر سے ہو یا سیکرٹ بیلٹ پیپر سے۔
سو دیکھتے ہیں کہ 12 مارچ کو ہونے والے سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف والے کیا گل کھلاتے ہیں؟
…………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔