پاکستان میں سینیٹ کے الیکشن 3 مارچ 2021ء کو ہونے جارہے ہیں۔ اس بار سینیٹ کی 48 نشستوں پر انتخابات پر انتخابی دنگل سجے گا۔ فاٹا کی چار نشستوں پر انتخابات نہیں ہوں گے جس کے باعث اس بار سینیٹ کی نشستیں 104 سے کم ہو کر 100 رہ جائیں گی۔ فاٹا کی باقی چار نشستوں پر سینیٹرز 2024ء میں ریٹائر ہوجائیں گے جس کے بعد فاٹا کی آٹھ نشستوں کافیصلہ ہوگا کہ یہ سیٹیں خیبرپختونخوا کو دی جائیں گی یا صوبوں میں برابر تقسیم ہوں گی؟ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد اس کی نشستوں کی تقسیم کا آئینی سوال ابھی حل طلب ہے۔
سینیٹ الیکشن کا میدان سجنے کو ہے۔ سیاسی جماعتیں سیاسی شطرنج کا اِحاطہ کرتے ہوئے اپنے اپنے مخالفین کی چال کو ناکام بنانے کے لیے حکمت عملی بنارہی ہیں مگر اس کی اہمیت امیدواروں اور نشستوں کے علاوہ اس کے طریقۂ کار نے مرکزی اہمیت اختیار کرلی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ رائج طریقۂ کار یعنی خفیہ رائے شماری کو ختم کرکے آرڈیننس کے ذریعے شو آف ہینڈ کو نافذ العمل قرار دیاجائے جب کہ عدالت نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ طریقۂ کار بدلنے کی یہ شق آئین میں کہیں نہیں لکھی، لہٰذا سینیٹ الیکشن کے طریقۂ کار میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کی جا سکتی ہے۔ عدلیہ کا کہنا ہے کہ یہ اتنا آسان عمل نہیں۔ آرڈیننس کے ذریعے سینیٹ الیکشن میں ترمیم ہو جائے۔ اس طریقۂ کار سے ترمیم کرنے کا مقصد ہے کہ آئندہ آنے والی ہر حکومت آرڈیننس کے ذریعے ہر بار سینیٹ الیکشن کے طریقہ کو تبدیل کرتی رہے گی۔ ہمیں آئین کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس عمل کو باریک بینی سے دیکھنا ہو گا۔
چاروں صوبوں میں سات سات جنرل نشستوں پر الیکشن ہورہا ہے اور چاروں میں ارکانِ اسمبلی کی تعدادالگ الگ ہونے کی وجہ سے ترتیب کچھ اس طرح ہوگی۔ پنجاب سے سینیٹ کی 7 خالی جنرل نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں۔ پنجاب میں ارکانِ اسمبلی کی کل تعداد 371 ہے۔ا س کو خالی نشستوں کی تعداد 7 سے تقسیم کیا جائے تو ہر امیدوار کے لیے مطلوبہ ووٹوں کی تعداد 53 بنتی ہے یعنی پنجاب سے ایک جنرل نشست حاصل کرنے کے لیے امیدوار کو 53 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
سندھ سے سینیٹ کی سات خالی نشستوں پر انتخابات ہورہے ہیں۔ وہاں پر ارکانِ اسمبلی کی کل تعداد 165 ہے۔ اگر سات جنرل نشستوں کی بات کی جائے، تووہاں پر امیدوار کو 23 ایم پی ایز کے ووٹ لے کر سینیٹر منتخب کرایا جا سکتا ہے۔
خیبر پختونخوا سے سینیٹ کی سات خالی جنرل نشستوں پرانتخابات ہو رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ارکانِ اسمبلی کی کل تعداد 144 ہے اوریہ اراکینِ اسمبلی اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ اگر سات جنرل نشستوں کی بات کی جائے، تو 21 ایم پی ایز کے ووٹ ایک سینیٹر منتخب کرسکیں گے۔
بلوچستان سے بھی سینیٹ کی سات خالی نشستوں پر انتخابات ہوں گے اور وہاں پر ارکانِ اسمبلی کی کل تعداد 65 ہے اور اگرسات جنرل نشستوں کی بات کی جائے، تو 9 ایم پی ایز ایک سینیٹر منتخب کرسکیں گے۔
سینیٹ انتخابات 2021ء کے ممکنہ نتائج کے مطابق تحریک انصاف 28 نشستوں کے ساتھ سینیٹ کی اکثریتی جماعت بن جاسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی 19 سینیٹرز کے ساتھ دوسری، مسلم لیگ ن 18 نشستوں کے ساتھ تیسری اور بلوچستان عوامی پارٹی 12 نشستوں کے ساتھ چوتھی بڑی جماعت بن کر سامنے آسکتی ہے۔ یہ تو ممکنہ نتائج ہیں، مگر یہاں پر شریفوں کی بولی میں بہت کچھ اِدھر سے اُدھر ہوجاتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک ویڈیو دیکھی جو شائد سینیٹ کے 2018ء الیکشن کے حوالے سے منظر عام پر آئی۔ اس میں جو کچھ دکھایا گیا، اگر وہ حقیقت ہے، تو پھر جنرل الیکشن میں غریب آدمی یہ حرکت کرلے، تو پھر کون سا گناہ ہوگیا؟ جہاں ہمارے اپنے نمائندگان اپنا سودا کرتے ہیں، تو پھر غریب کی غربت اس کو یہ کام کرنے پر مجبور کرتی ہو،تو پھر کسی کو کیا گلہ؟
الیکشن کا دن دور نہیں اور نتائج بھی پوشیدہ نہیں رہیں گے، مگر یہ حقیقت ہے کہ شرفا کی بولی کا ذکر عام ہوگا۔ کوئی اپنے ضمیر کی آواز کا نام دے گا، تو کوئی ملک کی بقا کا۔ کوئی سیاسی جماعت اپنے ممبر کو برا بھلا کہے گا، تو کوئی اس کی تعریف کے پُل باندھ رہا ہوگا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ سینیٹ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟
…………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔