واقعہ ہے سوات کے علاقے بحرین سے متعلق جس کو ایک برطانوی خبر رساں ادارے نے موضوع بنایا ہے۔ اگرچہ مقامی اور ملکی میڈیا کو اس واقعے پر گفتگو کرنی چاہیے تھی، لیکن پاکستانی میڈیا میں سیاسی خبروں کا رواج اتنا پختہ ہوچکا ہے کہ اب سماجی خبروں کے لیے یا تو وقت نہیں ملتا۔ اور اگر ملے بھی، تو سننے اور پڑھنے والے چند ہی ملتے ہیں۔ یوں لکھاری ہو یا اینکر سب کے سب سیاسی مصالحہ دار خبروں کی دکان سجائے بیٹھے ہیں۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ بحرین سے تعلق رکھنے والے ایک تیس پینتس سالہ نوجوان کو اس کے والد نے جانوروں کے اصطبل میں کئی سالوں سے باندھ رکھا تھا، جس کو مخبر کی اطلاع پر ضلعی انتظامیہ نے آزاد کرایا۔ تفصیلات کے مطابق یہ نوجوان ذہنی مریض ہے۔ اس کا والد صاحب دوسری شادی کرچکا ہے اور آج کل تبلیغ میں چار ماہ گزارنے گیا ہے۔ اس نوجوان کو کئی سالوں سے جانوروں کے ساتھ ایک جگہ زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا ہے۔ وہیں اسے کھانا دیا جا رہا ہے اور وہیں وہ جانوروں کی طرح بول و براز سے فارغ ہو رہا ہے۔ اس واقعے کی تفصیلات دیکھتے ہوئے میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ بھلا کوئی باپ اتنا بھی سخت دل ہوسکتا ہے؟ آپ کا بچہ ہے، ذہنی مریض سہی لیکن ہے تو آپ کی اولاد۔ آپ اس کا علاج نہیں کراتے بلکہ جانوروں کے ساتھ باندھ دیتے ہیں۔ اوپر سے راہِ خدا میں بندگانِ خدا کو دعوت دینے نکل پڑتے ہیں؟ کچھ عجیب سا ہے۔
قارئین، آپ ہی بتائیں کہ یہ حضرت بنا کس مٹی کا ہے؟ ہمارے گاؤں کے ایک امیر صاحب قریبی گاؤں میں تبلیغ کی غرض سے گئے تھے۔ بعد از نماز وعظ کے لیے آئے، تو تمام نمازیوں نے بائیکاٹ کر دیا۔ وجہ پوچھی گئی تو معلوم ہوا کہ مذکورہ امیر صاحب نے ایک عوامی راستے کو بند کیا ہے۔ قریب ہی موصوف کی جائیداد تھی۔ بائیکاٹ کا فائدہ یہ ہوا کہ واپس آتے ہی امیر صاحب نے راستہ کھول دیا۔
مجھے تبلیغ سے انکار ہے، نہ کسی خاص فرد کی ذات سے مسئلہ۔ مدعا صرف یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت ذہنی بیماریوں کی شکار ہے۔ جن میں سے کچھ خود کو بیمار تسلیم کرتے ہیں جب کہ اکثریت تسلیم کرنے سے  انکاری ہے۔ یہ ذہنی بیمار لوگ سرکاری دفتر میں ہوں، تو کسی کا جائز کام نہیں ہو رہا۔ ڈاکٹر ہو، تو صرف پیسے بٹورتا ہے۔ استاد ہو، تو صرف وقت گزارتا ہے۔ داعی ہو، تو اپنے معذور بچے کو باندھ کر تبلیغ پر نکل جاتا ہے۔ یہ معاملہ بحرین، سوات یا کسی ایک علاقے تک محدود نہیں بلکہ ملک بھر کا معاملہ ایسا ہی ہے۔
دوسری طرف روز بروز خود کُشیوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ وجوہات بے شمار ہیں۔ بنیادی سوال لیکن یہ ہے کہ ادراک کس کو ہے؟ حکومت کو یا عوام کو……؟ میرا نہیں خیال دونوں میں سے کسی ایک کو بھی ہے۔ حکومت کے تو کیا کہنے، لیکن عوام کہاں ہیں؟ بحرین کے عوام کا فرض نہیں بنتا تھا کہ اتنے سالوں سے ایک انسان جانوروں کے ساتھ پا بہ زنجیر ہے، تو بروقت پولیس یا انتظامیہ کو اطلاع دے دیتے اور کچھ نہ سہی امام مسجد کو ہی بتا دیتے۔ وہ جاتے اور اس نوجوان کو اصطبل سے نکال لیتے۔
جہاں یہ نوجوان گرفتار تھا، وہاں کے پڑوسی کیا روزِ قیامت اللہ کو جواب دے سکیں گے کہ انہوں نے حقِ ہمسائیگی ادا کیا تھا؟ یہ کیسی ہمسائیگی ہے کہ پڑوس میں ایک انسان جانوروں کے ساتھ سالوں سے رہنے پر مجبور ہو اور کسی کو خبر ہی نہیں ہو رہی ہو؟ افسوس صد افسوس!
اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اکثریت ذہنی امراض میں مبتلا ہے۔ ہر شخص اپنے مسائل میں اتنا مصروف ہے کہ آس پاس کے معاملات سے بے نیاز ہے۔ آخری اطلاع کے مطابق بحرین کے اس نوجوان کے لیے ضلعی انتظامیہ نے فی الحال گھر کی چھت پر خیمہ لگا رکھا ہے اور راشن مہیا کر دیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس مسئلہ کا یہی حل ہے؟ کسی کے پاس کچھ جواب ہے کہ نہیں۔ مسئلہ مگر یہی ہے کہ بیمار کا والد تبلیغ میں ہے۔ گھر والے انتہائی غریب ہیں اور سوات سمیت پورے ملاکنڈ ڈویژن میں کہیں بھی دماغی امراض کا ہسپتال موجود نہیں۔ اب چوں کہ وزیرِ اعلا صاحب کا تعلق اسی ضلع سے ہے، تو ان کو چاہیے کہ پورے ملاکنڈ ڈویژن کے لیے ایک جدید ذہنی امراض کا ہسپتال بنائیں، جس میں ذہنی امراض میں مبتلا بیماروں کا علاج ہوسکے۔ ان کے لیے بھی کام آسان ہوسکے جو حقیقت میں ہیں تو ذہنی بیمار، مگر مانتے نہیں۔ ہم سب اگر ذہنی بیمار نہ ہوتے، تو کیا معاشرے میں روا ظلم، زیادتی، مہنگائی اور بے راہ روی پر خاموش تماشائی بن کر رہتے؟
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔