ناقدین کی رائے میں وہ انتہائی بدتمیز انسان ہے۔ کسی کی سنتا نہیں۔ یہ ایک مثبت انداز میں ہو تو حرج بھی نہیں، بلکہ بہتری ہے، لیکن وہ کسی کی اچھی رائے بھی نہیں سنتا۔ ٹیم بنا دیتا ہے اور ٹیم ممبرز کو بھی علم نہیں ہوتا۔ نتیجتاً ٹیم بنتے ہی تتر بتر ہونا شروع ہوگئی۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ ایسے انقلابی نعرے لگائے کہ لوگوں نے جوق دور جوق اس کے جلسوں کا رُخ کر لیا۔ تمام علاقائی اور عالمی ماہرین حیران رہ گئے کہ وہ جیت بھی گیا اور جیتنے کے بعد اپنے نعروں کو عملی جامہ پہنانے کا اعلان بھی کر دیا۔ صورتِ حال چوں چوں کا مربہ سا بن گئی تھی۔ کیوں کہ اُس نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے انتخابی نعروں پہ ہی عمل کرکے حکومت کرے گا اور ساتھ یہ بھی کہتا تھا کہ وہ کبھی اپنی قوم کے مفاد کے خلاف نہیں جائے گا۔ اُس کی بدتمیزی کو اب ماہرین اس کی سچائی اور خلوص سے تشبیہ دینے لگے تھے۔ کیوں کہ اس کے سوا چارہ جو کوئی نہیں تھا۔ ملکی معیشت کی بہتری، مقامی لوگوں کو روزگار کی فراہمی، دوست ممالک سے بہتر تعلقات، مضبوط دفاع اور نہ جانے کتنے ہی ایسے انتخابی وعدے تھے جن پہ اب لوگوں کی نظر تھی اور توقع یہ کی جا رہی تھی کہ وہ یقینی طور پر کرنے پہ آگیا، تو ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
ناقدین ، تجزیہ کار، مبصرین، مشاہدہ کار سب اپنی جگہ حیران ضرور رہے، لیکن وہ بر سرِ اقتدار آ گیا۔ اب مجبوری تھی، مرتا کیا نا کرتا کے مصداق اچھی امید قائم رکھی گئی کہ کچھ بہتری لے آئے گا۔ اور نہیں تو سب کچھ تبدیل کرنے کی کوشش میں کچھ نا کچھ تبدیلی تو لے ہی آئے گا۔ لیکن کچھ ہی عرصہ میں دنیا نے دیکھا کہ وہ جتنے نعرے لگاتا تھا کہ ملک کی تقدیر بدل دے گا، وہ سب شور شرابا ہی ثابت ہوا۔ وہ بھی اپنے پیش روؤں پہ الزامات لگانے لگا۔ پھر بھی امید کے دیے کی لو پھڑپھڑاتی رہی کہ شائد کچھ بہتری آ ہی جائے۔ ایک ماہ، چھے ماہ، ایک سال، دو سال، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، امیدیں شکست خوردہ ہو کے دب گئیں، توقعات کے مینار دھڑام سے نیچے آ گرے کہ کئی سال بعد بھی اس کی روش نہیں بدلی۔ وہ آج بھی ویسی ہی تقریریں کر رہا ہے، جیسی وہ انتخابی مہم یا اپوزیشن کے دنوں میں کرتا تھا۔ لوگ مایوس ہونا شروع ہو گئے۔ لیکن مایوسی کا علاج اس نے یہ نکالا کہ جو گالم گلوچ بریگیڈ انتخابی مہم میں اس کے ساتھ تھا، اس نے ان کو ہی ساتھ رکھا، اور عملی طور پر اپنی کارکردگی ثابت کرنے کے بجائے اس نے ان کلکس کے کھلاڑیوں کو یہ یقین دلانا شروع کر دیا کہ مجھے تو بس غرض ہی تم سے ہے۔ لہٰذا نوجوانوں کی ایک ایسی نسل تیار ہوئی کہ جو اس کے ہر اچھے برے کام کی توصیف کرتے ہیں اور اس کی غلطیوں پہ پردہ ڈالتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس پہ تنقید کرنے والوں کی عزت پہ بھی الفاظ کے نشتر چلانے سے گریز نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ایک وہ شخص ٹھیک ہے جو آج تک اپنے لہجے کے تکبر میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہ یہ نہیں محسوس کرنا چاہتا کہ اب اس پہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، لیکن اس نے اپنی روش تبدیل نہ کی، لہٰذا اسے ایسے نوجوانوں کا ساتھ میسر ہے جو اس کے خلاف ہونے والی کسی بھی بات پہ گالم گلوچ کا ایک ایسا طوفان برپا کر دیتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ گالم گلوچ ہمارا قومی رویہ بن گیا ہے۔ کچھ سر پھرے اس طوفانِ بدتمیزی کے باوجود تنقید بہرحال کیے جا رہے ہیں۔ اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہے جا رہے ہیں، لیکن ایسا آخر کب تک ہوگا؟ کسی کو کوئی علم نہیں۔ سب اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور مارتے رہیں گے۔
اب ایک لمحہ اور آگے بڑھیے۔ حکومت کی مدت اختتام کی جانب بڑھنے لگی ہے، تو اسے نئی فکر نے آگھیرا ہے اور اس نئی فکر میں وہ پریشان ہے کہ اس سے اقتدار چھن گیا، تو اس نے جو روش اقتدار میں اپنائے رکھی، تو کوئی اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا، بلکہ اس کی بدتمیزیوں کا حساب بھی لیا جائے گا۔ اس لیے اس نے اپنے چند عاقبت نااندیشوں کو ساتھ لیا اور ایک ایسی مہم سر کرنے کی چکر میں لگ گیا کہ جو ناممکن نظر آتی تھی، اور ایسا ہوا بھی۔ وہ اپنے رویوں کا شکار خود ہو گیا۔ اس کے تکبر کا بت ایسے پاش پاش ہو رہا ہے جیسے ہونا چاہیے تھا۔ اس کی انا رُل رہی ہے۔ اس کے لہجے کی سختی بھی کم ہونا شروع ہو چکی ہے۔ اس کے لفظوں کے نشتر بھی رکنا شروع ہوچکے ہیں اور آنے والے دنوں میں اُسے گمنامی کے اندھیروں میں چلے جانے کا خوف بھی ستائے جا رہا ہے کہ اس کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی اس کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب پریشان ہیں کہ اقتدار سے جانے کے بعد ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ جی ہاں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اقتدار کی راہداریوں میں قدم رکھا، تو چاہے وہ میکسیکو کی سرحد پہ دیوار کی تعمیر ہو، یا ملازمتوں میں امریکیوں کو ترجیح دینے جیسے دل کو لبھانے والے نعرے ہوں، خود کو پرائی جنگوں سے الگ کرنے کے منصوبے ہوں یا پھر عالمی سطح پر سب سے پہلے امریکی مفادات کا تحفظ، ہر نعرہ پہلے سے زیادہ حسین تھا۔ ہر نعرے پہ لوگ دوڑے چلے آئے اور جس شخص کی باتوں سے پاگل پن کا خدشہ محسوس ہوتا تھا، اسے دنیا کی سپر پاؤر کا صدر بنا ڈالا۔ پھر وقت نے دیکھا کہ جتنا عرصہ موصوف اقتدار میں رہا کوئی نا کوئی نیا قضیہ ہی جنم لیتا رہا۔ سونے پہ سہاگا کہ اپنی تیز زبان کی وجہ سے بھی وہ ہمیشہ خبروں کی زینت بنتا رہا۔ تازہ ترین موصوف کے حامیوں کاکارنامہ واشنگٹن ڈی سی میں توڑ پھوڑ کرنا اور ہلڑ بازی کرنا ہے۔
تین تہائی کالم پڑھنے کے بعد آپ کیا اندازہ لگا رہے تھے کہ یہ تمام داستان پاکستان کے بارے میں ہے؟ جی، آپ بالکل غلط سمجھے تھے۔ کیا آپ کو لگا کہ یہ تمام داستان ہمارے عزیز کپتان کے بارے میں ہے؟ ارے جناب! آپ اس مرتبہ بھی غلط سمجھے ہیں۔ کیا آپ زبان کی تیزی، بدتمیزی، گالم گلوچ، طوفانِ بدتمیزی جیسے الفاظ کے استعمال سے یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ پاکستان کی حکمران جماعت کے بارے میں کہا جا رہا ہے؟ ارے صاحبان! معذرت خواہ ہوں۔ یہ پاکستان نہیں امریکہ کے بارے میں دہائی دی جا رہی تھی۔ آپ کیوں بضد ہیں، جب راقم الحروف نے ملازمتوں کے حوالے سے پاکستانی سرکار کا ذکر ہی نہیں کیا تو؟ ارے یہاں تو ایک کروڑ نوکریاں کپتان دے رہا ہے۔ ہم نے تو بس ملازمتوں کا لفظ استعمال کیا۔ مَیں معذرت خواہ ہوں، اگر آپ اس عکاسی کو پاکستان کے حالات کے مطابق سمجھے۔ جب کہ میرا بقائمی ہوش و حواس مخاطب انکل سام اور اس کے منھ پھٹ حاکم وقت اپنے ٹرمپ صاحب تھے۔ خدارا، پوا کالم پڑھ کے اندازے لگایا کریں۔
اور اے حاکمِ وقت! جان لیجیے کہ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں،کانٹوں کا ایسا ہار ہے جس کے کانٹوں سے بچاؤ کا واحد حل وعدوں کی تکمیل اور کارکردگی ہے۔ اور قارئین کے لیے عرض ہے کہ یہ امریکہ کے حوالے سے کہا جا رہا ہے۔ پاکستان میں تو سب اچھا ہے۔ ایک کروڑ میں سے آدھی نوکریاں مل چکی ہیں اور پچاس لاکھ میں سے بھی نصف گھر تعمیر کے آخری مراحل میں ہیں۔
یہ زبانِ اہلِ زمیں ہے۔
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔