پاکستان میں کرپشن ایک ناسور کی طرح پھیل گیا ہے اور معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ کرپشن پاکستان کے مسائل میں سے ایک سنگین ترین مسئلہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک جتنی بھی حکومتیں معطل کی گئیں، اُن سب پر کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے۔ حکومتوں کو برطرف کرنے والوں نے صاحبِ اقتدار حکمرانوں پر کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات تو لگائے، لیکن آج تک اُن سے ایک پائی تک وصول نہیں کی گئی۔ معطل کرنے والوں نے پھر انہی کرپٹ حکمرانوں کو سینے سے لگا کر اپنایا۔ حالاں کہ برسرِ اقتدار ٹولے پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات بالکل درست ہوتے تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں جب میاں محمد نواز شریف کی حکومت برطرف کی، تو دوسرے الزامات کے علاوہ ان پر بھی کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔ مشرف نے اپنے دورِ اقتدار میں بدعنوانی کے خاتمہ اور بدعنوانی کرنے والوں کے احتساب کے لیے نیب کا ادارہ تشکیل دیا۔ 2000ء میں نیب نے دو سو اہم شخصیات کے اثاثہ جات کی تحقیقات کے لیے ’’میسرز براڈ شیٹ‘‘ (ایل ایل سی) نامی فرم سے معاہدہ کیا کہ وہاں افراد کی جائیدادوں اور اثاثہ جاتہ کا پتا لگا کر حکومتِ پاکستان کو معلومات فراہم کرے۔
معاہدے کے مطابق ان افراد سے ریکوری کی صورت میں ’’براڈ شیٹ‘‘ کو 20 فی صد حصہ دیے جانے کا وعدہ کیا گیا، جب کہ ان 200 افراد میں سے صرف میاں محمد نواز شریف ٹارگٹ پر تھے۔ ایک اور معاہدہ ’’میسرز انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری‘‘ کے ساتھ بھٹو خاندان کے اثاثہ جات کا پتا لگانے کا کیا گیا۔ 2003ء میں حکومتِ پاکستان نے ’’براڈ شیٹ‘‘ کو ایک خط لکھا کہ فرم نے حکومتِ پاکستان سے جھوٹ بولا اور آج تک ایک بھی اثاثے کا پتا نہیں لگا پائی۔ سوائے اس کے جس کی معلومات نیب نے ’’براڈ شیٹ‘‘ کو فراہم کی تھیں۔ لہٰذا حکومتِ پاکستان براڈ شیٹ سے مذکوہ معاہدہ ختم کرتی ہے۔
’’میسرز انٹرنیشنل ایسٹ ریکوی‘‘ جس کی خدمات بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور دیگر کے اثاثہ جات کی تفصیل جاننے کے لیے حاصل کی تھیں، کے ساتھ بھی نیب نے قبل از وقت یہ معاہدہ ختم کیا اور خاموشی سے فرم کو 2.26 ملین ڈالر کی خطیر رقم ادا کی گئی۔
دوسری طرف ’’براڈ شیٹ‘‘ کے سربراہ ’’کاوے موسوی‘‘ نے اپنے انٹریو میں دعوا کیا کہ ان کی فرم نے 2002ء تک پاکستان سے چوری شدہ اربوں ڈالرز اثاثہ جات کا پتا لگا کر حکومتِ پاکستان کو معلومات فراہم کیں، لیکن نیب کے پہلے سربراہ جنرل (ر) امجد کو ہٹانے کے بعد نیب اور حکومت پاکستان نے کچھ نہیں کیا۔ نیب نے ہر قدم پر ’’براڈ شیٹ‘‘ کے اقدامات کو سبوتاژ کیا۔
گذشتہ دنوں ’’براڈ شیٹ‘‘ فرم کے سربراہ ’’کاوے موسوی‘‘ نے پاکستانی صحافیوں کو انٹریو دیتے ہوئے الزام لگایا کہ اُس کی فرم سے نیب نے 2000ء میں پاکستان کی چوری شدہ اثاثہ جات کا پتا لگانے پر 20 فی صد معاوضہ دینے کا معاہدہ کیا تھا، لیکن حکومتِ پاکستان نے 2003ء میں ’’براڈ شیٹ‘‘ سے یک طرفہ طور پر معاہدہ ختم کرتے ہوئے اسے مزید کام کرنے سے روک دیا تھا، لیکن اسے ادائیگی نہیں کی گئی۔ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ 2012ء  میں میاں محمد نواز شریف کے ایک رشتہ دار انجم ڈار نے ان سے ملاقات کرتے ہوئے نواز شریف کی طرف سے ڈھائی کروڑ ڈالرز رشوت دینے کی پیش کش کی۔
’’کاوے موسوی‘‘ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک سیاسی لیڈر آفتاب احمد خان شیر پاؤ کے اکاؤنٹ کے بارے میں بھی حکومتِ پاکستان کو آگاہ کیا گیا تھا کہ ان کے اکاؤنٹ میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ پڑے ہیں، لیکن اُس سے باز پرس کرنے کے بجائے سابق صدر جنرل مشرف نے اسے وزیرِ داخلہ بنا دیا۔
اب ’’براڈ شیٹ‘‘ کیس کے حوالے سے حالیہ رپورٹ کے مطابق نیب کی نااہلی کی وجہ سے ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اس رپورٹ سے نہ صرف نیب کی نااہلی اور نالائقی بے نقاب ہوئی بلکہ ایک دو اسیکنڈلز اور بھی سامنے آئے، جن کے مطابق 2008ء میں پاکستان نے ایک غلط شخص ’’جیری جیمز‘‘ جو امریکہ فلوریڈا کی کارباری شخصیت ہیں اور جو پہلے سے ’’براڈ شیٹ‘‘ کا حصہ رہ چکے تھے، کو 1.25 ملین ڈالڑز ادا کیے گئے ہیں۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ادائیگی براہِ راست جیری جیمز کو نہیں بلکہ ان کے نمائندے ظفر علی کے ہاتھوں کی گئی اور اس کو بھی خفیہ رکھا گیا۔ جیری جیمز نے اپنے ایک حلفیہ بیان میں وعدہ کیا کہ نیب پر ’’براڈ شیٹ‘‘ کی طرف سے تمام دعوے ختم کر دیے جائیں گے، لیکن ان کا حلف نامہ بھی جھوٹ کا پلندا تھا۔
حیرت کا مقام یہ بھی ہے کہ اس پر نہ انکوائری کا حکم دیا گیا اور نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی کہ کسی شخصیت نے 2008ء میں نیب کے کسی شخص کو اتنی بھاری رقم دینے کا اختیار دیا تھا کہ وہ نیب اور ’’براڈ شیٹ‘‘ کے درمیان بروکر کا کردار ادا کرے؟ ’’براڈ شیٹ‘‘ کو معلوم ہوا کہ ایک غلط شخص کو ادائیگی کی گئی ہے، تو اس نے 2016ء میں حکومتِ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی عالمی ثالثی عدالت میں مقدمہ دائر کیا۔ مقدمہ کی سماعت کے بعد عدالت نے ’’براڈ شیٹ‘‘ کے حق فیصلہ دے دیا، جس کی پاداش میں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر کے 28.7 ملین ڈالرز ضبط یا فریز کیے گئے۔
دوسر ابڑا اسکینڈل یہ کہ حکومت نے میاں محمدنواز شریف کے سنگاپور بینک میں جمع مبینہ طور پر ایک ارب ڈالرز کی بازیابی کے لیے ایک بار پھر ’’براڈ شیٹ‘‘ کی خدمات حاصل کرنا چاہیں۔ معاملات طے کرنے کے لیے اُس وقت کے وزیرِ خزانہ اسد عمر، وزیرِ اعظم کے معاؤنِ خصوصی شہزاد اکبر کی ’’براڈ شیٹ‘‘ کے نمائندے پاکستانی نژاد ظفر علی کی ملاقاتیں ہوئیں، لیکن مبینہ طور پر ایک پاکستانی افسر کی طرف سے پچاس فی صد حصہ بطورِ رشوت طلب کرنے پر ’’براڈ شیٹ‘‘ کے ساتھ معاہدہ طے نہ ہوسکا۔
اس طرح ایک اور سیکنڈل یہ بھی سامنے آیا کہ حکومتِ پاکستان نے مزید ادائیگیاں کی ہیں۔ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں ’’براڈ شیٹ رپورٹ‘‘ کو ایک دوسرے کے خلاف چارج شیٹ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ عوام کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون؟ بیان بازی کے بجائے تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اور اپوزیشن بیٹھ کر اس معاملہ کی تحقیقات کرتے کہ قومی خزانہ کو اتنا بڑا نقصان (کیوں کہ اس کیس میں ملین ڈالر کی ادائیگیاں اور بھی ہوئی ہیں) کس نے پہنچایا؟ جو کوئی بھی ہو اُسے قرار واقعی سزا دی جائے۔
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔