پاکستان ڈیمو کرٹیک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی حکمت عملی سامنے آچکی کہ ’’حکمران جماعت کے لیے کوئی میدان خالی نہیں چھوڑا جائے گا۔‘‘ بظاہر حزبِ اختلاف کا لانگ مارچ اور اجتماعی استعفے بھی سرد موسم سے بہار کی جانب بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ پی ڈی ایم کو پہلے محاذ میں جزوی ناکامی کا سامنا ہوا، جسے حکمران جماعت اپنی بڑی کامیابی قرار دیتی ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں نے احتجاجی جلسوں کا جو شیڈول طے کیا تھا، اس پر انہوں نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا، تاہم اس پہلو سے سب کو آگاہی حاصل تھی کہ جلسے جلوس سے حکومت کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، لیکن ایک سیاسی دباؤ کے لیے کارکنان کو اکھٹا کرنے کی مشق کی گئی جو حکومت کے تئیں رائیگاں چلی گئی۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق پی ڈی ایم کی جماعتیں اپنے پروگراموں پر منظم منصوبہ بندی کرنے میں فیصلہ سازی کی قوت میں کمزور نظر آئیں۔ پی ڈی ایم قائدین حکومت گرانے اور سینیٹ الیکشن رکوانے کی حکمت عملی پر متفقہ نہ ہوسکے اور بتدریج سیاسی صورتِ حال اس وقت یہ بن چکی ہے کہ سینیٹ انتخابات اپنے شیڈول کے مطابق ہوتے نظر آرہے ہیں۔ قبل ازوقت استعفے دے کر سینیٹ الیکٹرول ووٹ توڑنے کی حکمت عملی غیر مؤثرلگتی ہے۔
احتجاجی جلسوں میں بد نظمی، رابطوں کے فقدان کی وجہ سے عوام کو طویل دھرنے اور لانگ مارچ میں متحرک کرنے کی سیاسی کوشش، سرد و سخت موسم کے باعث کامیاب نظر نہیں آتی۔ کیوں کہ2014ء میں پاکستان عوامی تحریک کا سخت سرد موسم میں دو ماہ کا دھرنے کاناکام تجربہ سب کے سامنے ہے۔ غالباً مولانا فضل الرحمان کو اپنے کارکنان پر یقین ہے، لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نومبر 2019ء کے آزادی مارچ سے انہوں نے ناگزیر وجوہ کی بنا پر واپسی کی راہ اختیار کی تھی۔ کیوں کہ وہ بند گلی میں داخل ہوچکے تھے۔ اگروہ آزادی مارچ کو دھرنے میں تبدیل کردیتے، تو ان حالات میں پُرامن احتجاج، تشدد کے کسی بھی ناگہانی واقعے کی جانب مڑسکتا تھا۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مظاہرے یا کسی جماعت کے کارکنان کا مشتعل ہو جانا غیر معمولی نہیں سمجھا جاتا، جتنا مولانا فضل الرحمان کی مذہبی شخصیت ہونے کی وجہ سے کارکنان کا مشتعل ہوجانا، جمہوریت کے لیے خطرہ بن سکتا تھا۔مولانا نے صائب فیصلہ کیا تھا کہ واپسی کی راہ لی۔ ہر چند کہ ان کے پاس دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں تھا۔ اگر وہ متبادل راستے کو استعمال کرنے کی اجازت دے دیتے، توشاید ان کے لیے بھی حالات کو قابو کرنا ممکن نہیں تو دشوار ضرور ہو جاتا۔
پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد مولانا فضل الرحمان جس قسم کی سیاسی حکمت عملی پر مصر تھے، اس پر من و عن عمل ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ کیوں کہ مولانا کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا، جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست داؤ پر لگ ہوئی ہے، بالخصوص پی پی پی، سندھ حکومت کی قربانی دینے کے لیے بڑافیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہتی ہے۔ کیوں کہ موجودہ سیاسی حالات، انتخابات کے حوالے سے ان کے لیے آئیڈیل نہیں۔ اس کا اندازہ انہیں گلگت بلتستان الیکشن میں ہوچکا تھا کہ وہ جس قسم کے انتخابات کا تصور کر رہے ہیں، اس کے لیے انہیں مزید انتظار کرنا ہوگا اور پارٹی سٹرکچر کو بھی مضبوط بنانا ہوگا۔ یہی کچھ مسئلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی درپیش ہے۔ کیوں کہ پنجاب میں گروپ بندی کی واضح تقسیم بتا رہی تھی کہ پارٹی مزید انتشار کا شکار ہوسکتی ہے۔ اس لیے اب پارٹی قائدین کے بیانات کا جائزہ لیں، تو پی ڈی ایم جلسوں میں کی گئی تقاریر سے برخلاف اور مختلف توجیہات پیش کی جا رہی ہیں۔
مملکت میں سیاسی برداشت کا کلچر مضبوط ہونے میں ابھی کافی وقت درکار ہے۔ اسی طرح جب تک انتخابی اصلاحات کا عمل متفقہ طور پر منظور نہ ہو، اُس وقت تک کوئی بھی الیکشن کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے منصفانہ و شفاف نہیں ہوں گے۔ جو جماعت بھی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوگی، وہ دھاندلی کے الزامات ضرور لگائے گی۔ اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ حکومت گرانے کے لیے حالات، کسی طور سیاسی جماعت کے حق میں نہیں۔ کیوں کہ ایوانِ اقتدار اس حوالے سے اپنی حکمت عملی پر گامزن اور چھوٹی جماعتوں کے اَن گنت تحفظات کے باوجود اِن ہاؤس تبدیلی کے بھی آثاربظاہر نظر نہیں آ رہے۔ یہ مرحلہ حزبِ اختلاف کے لیے پریشان کن ضرور ہے، لیکن سیاسی پنڈتوں کے نزدیک اپوزیشن اچھی طرح جانتی ہے کہ جس طرح وہ اِن ہاؤس تبدیلی لانے کے لیے ایک صفحے پر اکھٹے نہیں ہوسکتے ، اسی طرح حکمران جماعت کے اتحادی اپنے سیاسی مستقبل کی خاطر آزمائے ہوئے کو مزید آزمانے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔
پی ڈی ایم کی تحریک کا دوسرا مرحلہ ماہِ اپریل کے بعد حقیقی رنگ میں آسکتا ہے، لیکن پُرامن تحریک کی صورت میں موجودہ حکومت کو پہلے بھی خطرہ نہیں تھا اور نہ آگے ہوگا۔اجتماعی استعفا دینے کا مقصد صرف سینیٹ انتخابی الیکٹرول کالج کو توڑنا تھا، اگر سینیٹ کے انتخابات وقت پر ہوگئے، تو بعد میں استعفا دے بھی دیں، تو آئینی تاخیری طریقۂ کار اختیار کرکے ضمنی انتخابات کرانا حکومت کے لیے مشکل نہیں ہوں گے۔ بظاہر نہیں لگتا کہ اس بار سینیٹ انتخابات میں ماضی کی روایات کے مطابق سیاسی وفاداریوں کے سودے بڑے پیمانے پر کیے جائیں۔ کیوں کہ اس سے حکومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، لیکن اس طرح کی سیاست کے دوبارہ آنے سے ایوانوں کی رہی سہی وقعت بھی ختم ہوجائے گی۔
حزبِ اختلاف والے اپنی احتجاجی تحریک کو نظام کی تبدیلی کی کوشش قرر دیتے ہیں کہ اس کا مقصد اقتدار کا حصول نہیں، تو پھر نظام کی تبدیلی کے لیے پورے سیاسی ڈھانچے کو ہی تبدیل کرنا ہوگا۔ کیوں کہ موجودہ سیاسی نظام کسی بھی پارلیمانی روایات کی ترجمانی کرتا نظر نہیں آرہا۔ یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ کسی بھی نظام کو تبدیل کرنے کی تحریک چند ہفتوں، مہینوں یا برسوں میں کامیابی حاصل نہیں کرتی بلکہ اس کے لیے آگ کے دریا سے گزرنا پڑتا ہے ۔ فی الحال تو ’’روای چین ہی چین‘‘ لکھتا ہے۔ لہٰذا پی ڈی ایم اپنے دوسرے مرحلے کی ابتدا کرنے سے قبل اپنی سیاسی اسٹریٹجی کو پھر سامنے رکھتے ہوئے زمینی حقائق کے مطابق فیصلہ کرے۔ پارلیمنٹ اب بھی ان کے پاس ایک ایسا پلیٹ فارم ہے، جہاں سے وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں، تاہم دیکھنا ہے کہ وہ اب کس سمت جاتے ہیں؟
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔