اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کے ما بعد بھارتی آرمی چیف جنرل ’’منوج مکونڈ نروانے‘‘ کا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ جنرل نروانے نے دونوں ممالک کی عسکری اور حکمران لیڈرشپ کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا۔ قوی امکان ہے کہ ان ممالک کی افواج کے سربراہ بھی جلد بھارت کا دورہ کریں گے۔
اس دورے کو مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے سیاسی منظرنامہ کے علاوہ عالمی طاقتوں، بالخصوص امریکہ اور چین کے مابین جاری کشیدگی کے تناظر میں بھی دیکھاجاتا ہے۔ پاکستان کی اسٹرٹیجک حکمت عملی پر بھی اس دورے کے گہرے اثرات مرتب ہوتے نظر آتے ہیں۔
بھارتی اس دورے کو تاریخی قراردیتے ہیں۔ کیوں کہ یہ کسی بھی بھارتی فوجی سربراہ کا پہلا متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا دورہ ہے۔ روایتی طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج پر پاکستان کاگہرا اثر و نفوذ رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ بھارت سے دور رہے۔ عالم یہ تھا کہ متحدہ عرب امارات کے پہلے پانچ ایئر چیف پاک فضائیہ کے افسر رہے ہیں۔ پاکستان 1967ء سے مسلسل سعودی عرب کی فوج اور فضائیہ کے لیے تربیتِ کار مہیا کرتا ہے۔ پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب میں تعینا ت ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستانی کمانڈوز ریاض میں شاہی خاندان کی حفاظت پر بھی مامور ہیں۔
بھارت کی جانب خلیجی ریاستوں کے رجحان کے پس منظر میں دو بڑے محرکات کار فرما ہیں۔
٭ پہلا محرک یہ ہے کہ ان ممالک کی موجودہ لیڈر شپ کاروباری ذہن کی حامل ہے۔ تیل پر دنیا کا انحصار ختم ہونے سے قبل وہ اپنے ملکوں کو جدید دنیا کے وسائل یعنی کاروبار، آئی ٹی اور دیگر ذرائع سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت انہیں ایک قابلِ عمل آپشن نظر آتا ہے، جہاں کاروبار کے مواقع دستیاب ہیں اور وسیع مارکیٹ بھی۔
٭ دوسرا محرک ان ممالک کے حکمران خاندانوں کا اپنی بادشاہتوں کے تحفظ کے لیے امریکہ بہادر پر کلی انحصار ہے۔ امریکہ انسانی حقوق اور جمہوریت کا علمبردار ہونے کے باوجود خلیجی ریاستوں میں بادشاہوں کو کندھا دیتا ہے۔ کیوں کہ اس کے مالی اور اسٹرٹیجک مفادات کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ ان ممالک کو شیر وشکر کرادیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے استوار ہونے کے ساتھ ہی بھارت کے لیے مشرق وسطیٰ کے دروازے چوپٹ کھل گئے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی گذشتہ چھے برسوں میں آٹھ دفعہ عرب ممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔ تین بار متحدہ عرب امارات اور دو بار سعودی عرب کا۔ مودی کو متحدہ عرب امارات کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ گذشتہ سال اکتوبر میں سعودی عرب کے دورے کے دوران دونوں ممالک کے مابین ’’اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کونسل‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اس طرح بھارت، برطانیہ، فرانس اور چین کے بعد دنیا کا چوتھا ملک بن گیا جس کے ساتھ سعودی عرب نے اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کی۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے ’’وژن 2030ء روڈ میپ‘‘ کے مطابق بھارت کو سعودی عرب کے آٹھ اسٹرٹیجک شراکت داروں چین، برطانیہ، امریکہ، فرانس، جرمنی، جنوبی کوریا اور جاپان میں سے ایک قراردیاگیا ہے۔
صدمے کی بات یہ ہے کہ اس فہرست میں پاکستان کا نام شامل نہیں۔
2018ء سے بھارت اور سعودی عرب کی مسلح افواج کے مابین وفود کی سطح کے تبادلے جاری ہیں۔ بھارت کے دفاعی تربیتی اداروں میں رائل سعودی مسلح افواج کے افسران کی تربیت پر اتفاق ہوچکا ہے۔ سعودی عرب اور بھارت کی بحریہ کے درمیان تعاون اور رابطوں کا سلسلہ کافی گہرا ہوچکا ہے۔ اگلے مرحلے پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بھارت کے مابین مشترکہ فوجی مشقیں، عسکری عہدیداروں کے دوروں کے تبادلے اور مشترکہ طور پر ہتھیاروں کی تیاری اور خلا میں سائنسی تجربات کے شعبوں میں تعاون کا سلسلہ شروع ہونے کو ہے۔
10 فروری کے کالم میں تفصیل کے ساتھ بھار ت کے ان ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کی گہرائی اور حجم کا ذکر کیا جاچکا ہے۔ تفصیل دہرانے کی ضرورت نہیں، لیکن صرف اتنا عرض کردینا کافی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اگلے برس جنوری کے تیسرے ہفتے میں منظر نامے سے رخصت ہوجائیں گے، ورنہ انہوں نے چین کے ساتھ دنیا کو جنگ میں الجھادینا تھا، یا ایران پر حملہ کردینا تھا۔ ان کے دل ودماغ پر جنگی جنون سوار ہوچکا تھا۔ صدر جوبائیڈن کی لیڈرشپ میں ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ چین اور ایران کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟
عمومی طور پر امریکہ میں چین اور ایران کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں پایاجاتا، البتہ امکان ہے کہ بائیڈن انتظامیہ، صدر بارک اوباما کی طرح ان ممالک سے کشیدگی میں اضافہ کے بجائے تعلقات میں بہتری کی راہ اختیار کرے گی۔
پاکستان کے لیے مشرقِ وسطیٰ اور بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھارت اور اسرائیل کے بڑھتے تعلقات پریشان کن ضرور ہیں، لیکن غیر متوقع نہیں۔ کشمیر پر ان کے طرزِ عمل کے بعد یہ آشکار ہوچکا تھا کہ عر ب ممالک ہمت ہار چکے ہیں۔ وہ ایک ایسی راہ پر گامزن ہوچکے ہیں، جو پسندیدہ نہیں، لیکن اب یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نے اپنے مستقبل کا تعین بہت غور و فکر کے بعد کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک نہیں کئی مرتبہ کہا کہ ’’پاکستان کا مستقبل چین کے ساتھ وابستہ ہے۔‘‘ اس پالیسی بیان نے یہ حقیقت آشکار کردی کہ پاکستان اپنی معاشی اور دفاعی ضروریات کے لیے نہ صرف چین کی طرف دیکھتا ہے، بلکہ وہ اسٹرٹیجک شراکت داری میں بھی چین ہی پر انحصار کرے گا۔ پاکستان نے ماضی کے تجربات اور دنیا کے معروضی حالات کا گہرا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔
آج کے زمانے میں سفارتی تعلقات میں روایتی دوستی اور دشمنی کا تصور برقرار نہیں رہا۔ اس لیے پاکستان بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ امریکہ بھی پاکستان سے دامن جھاڑ کر ایک طرف ہوجانے کے بجائے تعلقاتِ کار کو برقرار رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔
جہاں تک سعودی عر ب کا تعلق ہے، وہ فی الحال پاکستان کے ساتھ گہر ے اسٹرٹیجک رشتوں میں بندھا ہوا ہے، جنہیں متاثر کرنا آسان نہیں۔ سعودی عمومی طور پر جلدی بازی میں فیصلے نہیں کرتے، اور جو حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں، اس پر دیر تک قائم رہتے ہیں۔ انہیں پاکستان کی ضرورت ہے اوررہے گی۔
تاہم یہ پیشِ نظر رہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کی طرح عرب لیڈرشپ کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اس تلخ حقیقت کا ادراک کرناضروری ہے، اور اسی کے مطابق پاکستان کو اپنی حکمتِ عملی مرتب کرنا ہوگی۔
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔