حکومت اور حزبِ اختلاف جماعتوں کے درمیان سیاسی کشمکش میں روز بروز تیزی آرہی ہے۔ حزبِ اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم نے لاہور جلسے کے بعد مظاہروں اور اسلام آباد لانگ مارچ پر غور شروع کردیا ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کو بھی پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے، جس کے ردِ عمل کے طور پر عمران خان نے اپوزیشن کو متنبہ کرتے ہوئے اپنے لہجے کو بہت نچلی سطح تک پہنچا دیا ہے۔ جو جملے بازاروں اور چوراہوں پر لڑنے بھڑنے والے افراد ادا کرتے ہیں، وہ اب وزیرِ اعظم ادا کررہے ہیں۔ جیسا کہ ’’تم مجھے جانتے نہیں‘‘، ’’اپوزیشن مجھے جانتی نہیں۔‘‘ جب حکمران بار بار مَیں مَیں کرنے لگے، تو یہ اس کی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا اعلان ہوتا ہے۔
عمران خان ہر دو تین روز کے بعد ایسا شوشا چھوڑتے ہیں جس سے ان کے بارے میں یہ تاثر قائم ہوچکا ہے کہ وہ غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کے ماہر ہیں۔ جمہوریت کا بنیادی وصف ہی یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں ٹھنی رہتی ہے۔ اپوزیشن حکومت کو کوئی غیر قانونی قدم اٹھانے نہیں دیتی، اور عوامی سطح پر شدید مزاحمت کرتی ہے۔ وہ جلسے، جلوسوں اور احتجاج کے دیگر ذرائع اپنا کر حکومت کو پسپا ہونے پر مجبور کردیتی ہے، جب کہ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ اپوزیشن متحد اور مؤثر نہ ہونے پائے۔ ’’آر یا پار‘‘ والے جملوں پر حکومت اور اپوزیشن دونوں سیاست کررہے ہیں، یہ سیاست کو بدنام کرنے والا رویہ ہے۔ دونوں طرف سے اس سے احتراز برتنے کی ضرورت ہے۔
جو حکمران دور اندیش اور عوامی مزاج کو سمجھتے ہیں، وہ سب سے پہلے عوام کو درپیش مسائل حل کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ خاص طور پر ان کے لیے ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو آسان بناتے ہیں۔ وہ کسی صورت بھی اشیائے خور و نوش کی قلت اور گرانی کو برداشت نہیں کرتے اور طلب و رسد کا ایسا مضبوط نظام قائم کرتے ہیں کہ عوام کو کوئی دشواری نہ ہو۔ بس یہی چیز حکومت کا پلا بھاری کردیتی ہے اور اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور وقت سے پہلے رخصت کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں، لیکن پاکستان میں ہوا یہ کہ عمران خان اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف جن نعروں کی بنیاد پر اقتدار میں آئے تھے، اقتدار کی باگیں اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد بھی ان نعروں کو ترک کرنا گوارا نہ کیا۔ وہ اقتدار میں آنے سے پہلے ایک اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے کنٹینر پر سوار اپنے مخالفین کو للکار رہے تھے۔ شریف فیملی اور زرداری ان کا خاص ہدف تھے۔ ان کا دعوا تھا کہ ان لوگوں نے ملک کو لوٹا ہے اور قومی دولت ملک سے باہر لے گئے ہیں۔ وہ برسرِاقتدار آتے ہی لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائیں گے اور قومی مجرموں کو عبرت ناک سزا دیں گے۔ ڈھائی سال ہوگئے عمران خان کو اقتدار میں آئے، لیکن آج بھی وہ سرکاری کنٹینر پر کھڑے بدستور یہی نعرے لگارہے ہیں۔ ان نعروں میں مزید ایک دو نعروں کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ’’نہیں چھوڑوں گا‘‘، ’’این آر اُو نہیں دوں گا‘‘ وغیرہ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چھوڑنا اور پکڑنا یا این آر اُو دینا نہ دینا وزیراعظم کا کام ہے؟ کیا عوام نے انہیں اس لیے منتخب کیا ہے کہ وہ ملک و قوم کو درپیش مسائل کو ایک طرف رکھ کر اپنے سیاسی مخالفین کو فکس اَپ کرتے پھریں اور حکومت کی ساری توجہ اسی ایک کام پر لگادیں؟ بے شک ان کے سیاسی حریف قومی مجرم ہیں، انہوں نے قومی دولت بھی لوٹی ہے، وہ منی لانڈرنگ کے گھناؤنے جرم میں بھی ملوث ہیں، لیکن انہیں پکڑنے کے لیے کیا ملک کا قانون کافی نہیں؟ کیا ملک میں احتساب کا ادارہ اور عدالتیں موجود نہیں؟
انہیں تو خاموشی سے اپنے اصل کام یعنی عوامی مسائل پر توجہ دینا چاہیے تھی، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عوامی مسائل ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ ان کی حکومت آتے ہی ملک میں مہنگائی کا سیلاب آگیا، لیکن وہ اسے روکنے میں ناکام رہے۔ ان کا دعوا تھا کہ وہ کبھی آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے، لیکن پھر ہوا یہ کہ نہ صرف آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلایا گیا بلکہ اس کی شرائط کو من و عن قبول کرتے ہوئے پوری قومی معیشت اس کے حوالے کردی گئی۔ اب سارے فیصلے ان کی مرضی کے مطابق ہورہے ہیں۔ وزیراعظم کی یہ بات درست ہے کہ حکومت تبدیل کرنے کا آئینی اور قانونی راستہ یہی ہے کہ قومی اسمبلی میں وزیرِاعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی جائے، لیکن حزبِ اختلاف اس راستے کو اختیار نہیں کر رہی۔ اگر حزبِ اختلاف نے اپنے اعلان کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفا دے دیا، تو سیاسی عدم استحکام مزید بڑھ جائے گا اور اتنے بڑے پیمانے پر ضمنی انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔ پھر نئے انتخابات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔
ان حالات میں بظاہر ملکی صورت حال تصادم اور انارکی کی طرف جاتی محسوس ہوتی ہے مگر جمہوری رویے اور سیاسی بصیرت بروئے کار لاکر اس کیفیت میں بھی بہتری اور استحکام کے راستے نکالے جاسکتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے عوامی مسائل حل کرنا، اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہی بہترین صورت ہے۔
…………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔