جلوس نکالیں۔ جلسہ کریں۔ شادی بیاہ کی تقریبات بھی ضروربرپا کریں، لیکن یہ نہ بھولیں کہ کورونا نے دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ جس کے پاس بہترین سائنس دانوں اور طبی ماہرین کے علاوہ جدید ترین ادویہ اور بے حدوحساب مالی وسائل بھی ہیں،کی چیخیں نکال دی ہیں۔ کس برتے پر ہم اتراتے پھرتے ہیں!
کورونا ہے کہ مسلسل بھیس بدلتا ہے۔ اس کے کئی روپ اور رنگ ہیں۔ سائنس دان ابھی تک اس کی کیفیت اور ساخت کا اندازہ کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے۔ خود صدر ڈونلڈٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ کورونا وائرس کا شکار ہوئیں۔ اب ان کے بڑے صاحبزادے جونیئر ٹرمپ بھی اس عالمی وبا کے ہاتھوں گھائل ہوچکے ہیں۔ ڈھائی لاکھ امریکی موت کے گھاٹ اترچکے ہیں۔ گذشتہ چند دنوں سے روزانہ دو ہزار کے لگ بھگ امریکی شہری مررہے ہیں، توہم کس کھیت کی مولی ہیں!
برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن موت کے منھ سے واپس لوٹے۔ برطانیہ میں بھی حالات بگڑ رہے ہیں۔ بھارت میں 1 لاکھ 33 ہزار سے زائد افراد کورونا کے باعث انتقال کرچکے۔ بھارت کا ذکر ہی کیا، وہاں کے معاشی اور سماجی حالات دگرگوں ہیں، لیکن برازیل، فرانس اور روس جیسے امیر اور طاقت ور ممالک میں بھی ہزاروں لوگ جان کی بازی ہارچکے اور یہ سلسلہ تھما نہیں۔
پاکستان پر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا۔ ابھی تک ساڑھے سات ہزار سے اوپر لوگ اس مہلک وبا کا شکار ہوئے، لیکن اب صورت حال بدل چکی ہے۔ درجنوں جاننے اور ملنے والے اس وبا کے ہاتھوں نقدِ جاں ہار بیٹھے۔ کئی ایک سخت اذیت کے بعد جانبر ہوئے۔ طبی ماہرین حد درجہ احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں، لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بڑی بڑی تقریبات برپا کی جاتی ہیں۔ گلگت بلتستان کے الیکشن میں ہزاروں لوگ سیاسی اجتماعات میں شریک ہوتے رہے۔اب پی ڈی ایم نے ضد کرکے پشاور میں جلسہ کرلیا۔ ذمہ دار سیاست دانوں نے کورونا کا مذاق اڑایا۔ حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمان ماسک پہنتے ہیں اور نہ ان کے ساتھی۔ بلاول بھٹو کے علاوہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ بسااوقات گمان گزرتا ہے کہ جب تک ان لیڈران کو خود کورونا نہیں ہوگا۔ یہ شہریوں کی زندگیوں سے کھیلنا بند نہیں کریں گے ۔
سیاست دان رجحان ساز ہوتے ہیں۔ عوام الناس ان کی پیروی کرتے ہیں۔ افسوس! وہ شہریوں کے تحفظ سے زیادہ اپنی سیاست کو رواں دواں رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اکبراِلہ آبادی نے کہا تھا
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام سے
پی ڈی ایم کے لیڈران کو چاہیے کہ وہ حالات کی نزاکت کا احساس کریں۔ کچھ عرصے کے لیے اپنی سیاسی سرگرمیاں معطل نہیں کرسکتے، تو کم ازکم سست ضرور کریں۔ آن لائن سرگرمیاں رواں رکھیں۔ سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنے حامیوں کا لہو گرم رکھیں۔البتہ غریب لوگوں کی زندگیوں سے نہ کھیلیں۔
ٍ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ لیڈروں کے لیے سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے دروازے بوقتِ ضرورت وا ہوجاتے ہیں۔ ہاں! عام شہری رُل جاتا ہے۔ اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ سرکاری ہسپتالوں کا حال عشروں سے پتلا ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال علاج سے زیادہ مریضوں کی کھال ادھیڑ نے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔نجی ہسپتالوں میں اکثر خاندان کوڑی کوڑی کے محتاج اور کورونا کا مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اس جہانِ فانی سے رخصت ہوجاتاہے۔
بدقسمتی کے ساتھ سماج کی گذشتہ سات دہائیوں میں کوئی قابل ذکر تربیت نہ کی جاسکی۔ شہری ریاستی احکامات کو خاطر میں لاتے ہیں اور نہ طبی ماہرین کے مشوروں کو اہمیت دیتے ہیں۔وہ تقدیر پرست کہلانے پسند کرتے ہیں۔ توکل کے نام پر بے احتیاطی کرتے ہیں۔
علما کی بھاری اکثریت اور متوسط طبقے کی ایک بڑی تعداد ابھی تک کورونا کو مغرب کی سازش سے تعبیر کرتی ہے۔ جہاں بھی جاتے ہیں، لوگ معانقہ کرتے ہیں اور خوب گھل مل کر رہتے ہیں۔ چند بڑے شہروں، پوش علاقوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چھوڑ کریہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔
پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو گلگت بلتستان کے الیکشن کے نتائج سے یہ اندازہ ہوجانا چاہیے تھاکہ ان کا بیانیہ عوامی پذیرائی حاصل نہیں کرپایا ہے۔ پاکستانیوں کے لیے ان کا پیغام نیا ہے اور نہ چہرے۔ گلگت بلتستان میں ہونے والے الیکشن میں پیپلزپارٹی اور نون لیگ کو نیشنل میڈیا نے بھرپور کوریج دی۔ لوگوں نے بھی انہیں جم کر سنا، لیکن ووٹ ان کے حق میں نہ ڈالا۔ عالم یہ ہے کہ سابق وزرائے اعلیٰ مہدی شاہ اور حفیظ الرحمان بھی اپنی نشستیں کھو بیٹھے۔ حالاں کہ حفیظ الرحمان نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں کافی ترقیاتی کام کرائے، لیکن چوں کہ وہ ایک غلط بیانیہ کے ساتھ جڑے تھے، لہٰذا انہیں بھی عوام نے مسترد کردیا۔
اعجاز شفیع گیلانی کا ادارہ گیلپ جو عمومی طور پر نون لیگ کے لیے نرم گوشہ رکھتاہے، اپنے حالیہ سروے میں بتاچکا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو ابھی تک عوام کی بھاری اکثریت کی تائید حاصل ہے۔ لوگ حکومت کی تبدیلی کے نہیں بلکہ نظام میں بہتری کے حق میں ہیں۔ وفاقی حکومت جو دور رس اصلاحات کررہی ہے، لوگوں کو امید ہے کہ رفتہ رفتہ حالات میں سدھار آئے گا۔ پی ڈی ایم جو متبادل پیش کررہا ہے، وہ انہیں اپیل نہیں کرتا۔ گذشتہ تین دہائیوں سے پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں حکومتوں کا حصہ رہی ہیں، یا پھر براہِ راست حکومت کرتی رہی ہیں۔ عوام انہیں بھگت چکے ہیں۔ مشکل سے دوپاٹیوں کی پارٹنرشپ سے عوام نے جان چھڑائی۔ اب وہ دوبارہ اس چنگل میں پھنسنے کو تیار نہیں۔
ڈھائی برس انتظار کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ عام الیکشن کا معرکہ برپا ہوگا، تو اس میں زور آزمائی کے لیے خاطر جمع رکھیں۔ جلسوں اورجلوسوں سے حکو متیں ختم ہوتی ہیں اور نہ یہ حکومت رخصت ہونے کو ہے۔ مدت بعد ریاست کے تمام ادارے ایک صفحے پر ہیں اور مل کر پاکستان کو ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں۔ ماضی میں حکومت، عدلیہ اور عسکری اداروں کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اور عدم اعتماد نے ملک کو مسلسل بحرانوں سے دوچار کیے رکھا۔ اب یہ سلسلہ رکا ہے، تو شکربجا لائیں۔ اس دور ان میں الیکشن کے نظام میں اصلاحات اور دیگر اہم قومی امور پر قانون سازی کریں، تاکہ اگلے الیکشن ’’شفاف‘‘ ہوں تاکہ کوئی ان کی صحت پر انگلی نہ اٹھاسکے۔یہی واحد حل ہے!
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔