ہماری پشتو کی ایک مشہور کہاوت ہے: ’’پانی جب ایک جگہ ٹھہر کر رہ جاتا ہے، تو یہ تعفن زدہ ہوجاتا ہے۔‘‘ ٹھیک اسی طرح جو قومیں جمود کا شکار ہوجاتی ہیں، وہ بالآخر صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ ان کے مقابلہ میں جو قومیں نئی دنیائیں تلاشتی ہیں، ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر باقی ماندہ دنیا کا رُخ جس طرف موڑنا چاہیں، موڑ لیتی ہیں۔
ایسی ہی ایک چھوٹی سی ٹیم "Skool21” کی بھی ہے جو جمود کا شکار ہونے کی بجائے، ہر دم حرکت پر یقین رکھتی ہے اور یہی حرکت یکم نومبر 2020ء کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ’’آرڈینو ایکسپو 2020ء‘‘ کا انعقاد کرکے ملک و قوم کے لیے برکت کا سبب بننے جا رہی ہے۔
٭ "Skool21” کیا ہے؟
"Skool21” بنیادی طور پر ایک ایجوکیشنل کنسلٹنسی ہے، جس کی بنیاد 2017ء کو اسلام آباد میں رکھی گئی۔ امریکی ادارے "Stem.org” کا پورے سارک ریجن (SAARC Region) کے لیے "Skool21” ہی واحد پارٹنر ادارہ ہے۔ یہ دورِ دوجدید کے تعلیمی فلسفوں پر تحقیق کرتا ہے اور رائج تعلیمی نظام میں ’’سٹم ایجوکیشن‘‘ (STEM Education) کے ذریعے تبدیلیاں لانے کی کوشش میں مگن ہے۔

"Skool21” کی طرف سے جاری ورکشاپ میں ایک ماڈل کی تیاری کی جا رہی ہے۔ (فوٹو: فضل خالق)

٭ ’’آرڈینو‘‘ کیا ہے؟
"Skool21” کے پروگرام ڈائریکٹر فضل ہادی صاحب کے بقول ’’آرڈینو‘‘ (Arduino) ایک چھوٹا سا سرکٹ ہے۔ اس میں مائیکرو کنٹرولر لگا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ مختلف سینسر (Sensors) جوڑے جاسکتے ہیں۔ مذکورہ سینسر ماحول سے ڈیٹا (Data) جمع کرتے ہیں اور کمپیوٹر پروگرامنگ کے ذریعے لیے گئے ڈیٹا کو پراسس (Process) کرتے ہیں۔ آپ کو نتیجے کے طور پر وہی کچھ ملتا ہے، جو آپ نے پہلے سے پروگرامنگ کی ہوئی ہوتی ہے۔‘‘
فضل ہادی صاحب کی ان باتوں کی تصدیق "Skool21” میں جاری ’’آرڈینو ورکشاپ‘‘ میں اُس وقت ہوئی جب ایس پی ایس کالج کے سالِ اوّل کے کچھ طلبہ کے ہاتھوں میں ’’آرڈینو‘‘ کی مدد سے ایک چھے یا سات انچ کا چھوٹا سا آلہ دیکھا گیا۔ مذکورہ آلے کی اِفادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گھر میں جہاں کہیں بھی گیس لیک ہو رہی ہو، تو یہ ایک مختلف قسم کی بھاری آواز اور ایک نیلے رنگ کے ننھے سے قمقمے کے بار بار ٹمٹمانے سے خطرے کی پیشین گوئی کرے گا۔
اس طرح ایک اور گروپ جس کی لیڈنگ محمد احسان اللہ خان نامی طالب علم کر رہے تھے، نے ایک ایسی عینک تیار کی ہے، جو بصارت سے محروم (Blind) لوگوں کے لیے مخصوص تھی۔ اس میں ایسے سینسر کا استعمال کیا گیا تھا جو تین چار فٹ کے احاطہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کا پہلے سے اشارہ (Indication) دیتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایک ماڈل ’’ایکسپو‘‘ کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں۔

آرڈینو کے ذریعے بصارت سے محروم افراد کے لیے خصوصی طور پر تیار کی گئی عینک۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

٭ ’’آرڈینو‘‘ آج کے طلبہ و طالبات کے لیے کتنا ضروری ہے؟
اس سوال کے جواب میں فضل ہادی صاحب کہتے ہیں: ’’دراصل ہر دور کی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ جیسا کہ پہلے صنعتی انقلاب میں مشین ایجاد ہوئی، تو اُس دور میں ضرورت یہ تھی کہ ایک بندہ کم از کم مشین کا استعمال جانتا ہو۔ اس طرح دوسرے صنعتی انقلاب میں مشین کے ساتھ بجلی کا اضافہ ہوا، تو اُس دور میں وہی قوم ترقی کرگئی، جو مشین کے ساتھ ساتھ بجلی پیدا کرنے کا عمل بھی جانتی تھی۔ تیسرے صنعتی انقلاب میں کمپیوٹر ایجاد ہوا۔ آج ہم چوتھے صنعتی انقلاب سے گزر رہے ہیں۔ اس دور کا تقاضا ہے کہ ہماری نئی نسل نہ صرف کمپیوٹر پروگرامنگ، کوڈنگ اور الیکٹرانکس کا بہتر طریقے سے ادراک رکھتی ہو بلکہ انہیں استعمال میں لانا بھی جانتی ہو۔ ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے "Skool21” روزِ اول سے طلبہ و طالبات کو ’’آرڈینو‘‘ کے ذریعے چوتھے صنعتی انقلاب میں ایک ہنرمند پاکستانی کی شکل میں اپنا کردار نبھانے کے لیے تیار کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ ہمارے بچے اگر ابھی سے جان لیں کہ چوتھے صنعتی انقلاب کی ضروریات کیا ہیں، تو یہ بھی ایک معرکہ سے کم نہ ہوگا۔‘‘

آرڈینو ورک شاپ میں طلبہ کا ایک گروپ اپنے کام میں مگن ہے۔ (فوٹو: فضل خالق)

٭ صنعتی انقلاب کی اصطلاح کیسے رائج ہوئی؟
تاریخ کے صفحات سے اگر گرد اُڑائی جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’صنعتی انقلاب‘‘ کی اصطلاح ’’آرنلڈ ٹوئن بی‘‘ (Arnold Toynbee) نامی ایک شخص نے روشناس کرائی۔ ’’صنعتی انقلاب‘‘ کے موضوع پر اُس کے لیکچر 1884ء کو شائع ہوئے۔ ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب ’’تاریخ کی خوشبو‘‘ کے صفحہ نمبر 132 پر ’’انقلاب کا بدلتا مفہوم‘‘ کے عنوان سے رقم کرتے ہیں: ’’صنعتی انقلاب کی ابتدا ٹیکنالوجی کی ایجادات کی ابتدا سے ہوئی۔‘‘ عادل عزیز خانزادہ اپنے ایک تحقیقی مقالہ ’’نیا صنعتی انقلاب کیا تبدیلی لائے گا؟‘‘ (شائع شدہ، ڈان اردو سروس) میں پہلے، دوسرے اور تیسرے صنعتی انقلاب کو آسان الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں:
٭ پہلا صنعتی انقلاب 1760ء سے 1820ء میں آیا، جس میں پیداوار میں اضافہ کرنے کی غرض سے صنعتی شعبے میں مشینوں کو چلانے کے لیے پانی اور بھاپ کا سہارا لیا گیا۔ اس انقلاب سے لوگوں کی زندگیاں نہ صرف مکمل طور تبدیل ہوگئیں، بلکہ آمدنی میں بھی یقینی اضافہ ہوا۔
٭ دوسرا صنعتی انقلاب بظاہر اِسی کا ایک تسلسل ثابت ہوا اور سب سے بڑی ایجاد بجلی اور مواصلات کا نظام تھا، جن کو استعمال میں لاکر پیدوار کو مزید بڑھایا گیا۔ یہ دور 1840ء سے شروع ہوا اور پہلی جنگِ عظیم تک جاری رہا۔
٭ 20ویں صدی کے آغاز میں دنیا نے تیسرے صنعتی انقلاب کو ایک جدید ٹیکنالوجی کے طور پر دیکھا، جب انٹرنیٹ (Internet)، کمپیوٹر (Computer)، پرنٹنگ کا نظام (Printing System) اور تھری ڈی (3D) جیسی ایجادات نے ہر شعبے میں اپنی اہمیت کو اُجاگر کیا اور آج جس مقام پر دنیا کھڑی ہے، وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ اسی دور میں جہاز کی ایجاد نے ذرائع نقل و حمل کی مشکلات کو بھی حل کردیا۔‘‘
٭ چوتھا صنعتی انقلاب کیا ہے؟
چوتھے صنعتی انقلاب کو عادل عزیز خانزادہ مذکورہ مقالہ میں یوں بیان کرتے ہیں: ’’چوتھے صنعتی انقلاب کا جائزہ اگر ہم ایک آسان اصطلاح سے لیں، تو یہ بائیولوجیکل (Biological)، فزیکل (Physical) اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی (Digital Technology) کا ایک ملاپ ہے، جس میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس (Artificial Intelligence) یعنی مصنوعی مشینی ذہانت، بغیر ڈرائیور کے چلنے والی خودکار گاڑیاں (Automatic Vehicles)، جدید ڈرونز (Modern Drones)، تھری ڈی پرنٹنگ (3D Printing)، کوانٹم مکینکس (Quantum Mechanics) اور کوانٹم کمپیوٹرز (Quantum Computers)، جدید کرنسی (Modern Currency) اور انٹرنیٹ (Internet) کے ساتھ ساتھ بائیو ٹیکنالوجی (Biotechnology) اور نینو ٹیکنالوجی (Nanotechnology) پر مشتمل ایسی ڈیوائسز (Devices) شامل ہیں، جو انسانی کام کو انتہائی کم کرکے تقریباً ہر شعبے میں ہی مثالی تبدیلی لاسکتی ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ چوتھے صنعتی انقلاب برپا کرنے میں جرمنی، چین، جاپان، امریکہ اور جنوبی کوریا سرفہرست ہیں۔

چوتھا صنعتی انقلاب انسانی کام کو انتہائی کم کرکے ہر شعبہ میں مثالی تبدیلی لاسکتا ہے۔ (Photo: commercient.com)

٭ آرڈینو ایکسپو 2020ء کب اور کہاں ہے؟
’’آرڈینو ایکسپو 2020ء‘‘ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا ایکسپو ہے۔ "Skool21” کی چھتری کے نیچے ایس پی ایس کالج (رحیم آباد، سوات) میں پچھلے ایک ہفتے سے اس کے لیے تیاری ایک ’’ورکشاپ‘‘ کی شکل میں جاری ہے، جس میں تیار ہونے والے ماڈلوں کی نمائش یکم نومبر 2020ء کو ایس پی ایس کالج کے شمشال ہال میں ہوگی۔ ورکشاپ میں تمام تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات اور ان کے والدین کو خوش آمدید!
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔