کسی ملک کی معیشت کا دار و مدار دو باتوں پر ہوتا ہے۔ انسانی وسائل اور قدرتی وسائل۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو انسانی وسائل کے ساتھ قدرتی وسائل سے بھی مالا مال کر رکھا ہے۔ یہاں قدرتی معدنیات ہیں، سمندر ہے، متعدد بڑے دریا ہیں، پہاڑ ہیں، گھنے جنگلات ہیں، صحرا ہیں اور بہترین موسم ہیں۔ غرض، وطنِ عزیز میں ہر وہ نعمت فراواں موجود ہے جو انسان کی بہتری اور کسی ملک کی غیرمعمولی ترقی کے لیے استعمال میں لائی جاسکتی ہے۔
اگر صرف دریائے سوات کی بات کی جائے، تو اس سے ہماری زمینیں سیراب ہوتی ہیں جس کی وجہ سے سوات نہ صرف سرسبز و شاداب ہے، بلکہ مختلف میٹھے پھلوں کے لیے مشہور ہے۔ دریائے سوات کے پانی سے درگئی میں تین ہائیڈل بجلی گھر قائم ہیں، جو سالانہ اربوں روپے کی بجلی پیدا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریائے سوات کے ذریعے ضلع ملاکنڈ اور ضلع مردان میں کروڑوں ایکڑ کی زمین سیراب ہوتی ہے جس کی زرعی پیداوار دریائے سوات کی مرہونِ منت ہے۔ دریائے سوات کی آبی حیات جس میں ٹراؤٹ مچھلی اور سواتی مچھلی پائی جاتی ہے اوراس کے علاوہ دیگر سیکڑوں قسم کے پرندے اور جانور اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس طرح دریائے سوات کی تاریخی حیثیت ہزاروں سال پر محیط ہے، جس کا تذکرہ مختلف مذہبی اور تاریخی کتابوں میں کیا گیا ہے جو غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے ۔
دریائے سوات ہمارے بہت سے مسائل حل کر رہا ہے، لیکن آئیں دیکھتے ہیں، اس کے مسائل کیا ہیں؟
سوات کے لوگوں نے دریائے سوات کی حدود میں بے تحاشا آبادیاں تعمیر کی ہیں، جس میں ہوٹل، مکانات اور دیگر طرح طرح کی عمارات شامل ہیں۔ اس وجہ سے دریا کا پاٹ تنگ پڑ چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ معمولی سیلاب کی صورت میں بھی بہت سا جانی و مالی نقصان ہوجاتا ہے۔ میرے خیال میں اس میں دریائے سوات کی کوئی غلطی نہیں بلکہ مقامی لوگوں کی غلطی ہے جو آبیل مجھے مار کے مصداق ہے۔
اس طرح وادیِ سوات میں جتنے بھی ندی نالیاں ہیں، وہ مختلف علاقوں سے گزرتی ہوئی دریائے سوات میں شامل ہوجاتی ہیں۔ وہیں بھی اس طرح کی صورتِ حال ہے۔ وہاں پہ بھی لوگوں نے ان کے کناروں پر ناجائز اور غیرقانونی آبادیاں بنا رکھی ہیں۔ ان میں بھی جب طغیانی آجاتی ہے، تو وہاں پہ بھی جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد لوگ حکومت سے نقصانات کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں جو کہ سراسر غیرقانونی ہے۔ کیوں کہ غیر قانونی آبادیوں کے دریابرد ہونے کے بعد حکومت سے ان کے ازالے کے لیے مطالبہ کرنا کیسے قانونی ہوسکتا ہے؟
دریائے سوات کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ کالام سے لے کر لنڈاکی تک اس میں لوگ ہر طرح کی گندگی پھینکتے ہیں۔ ہرقسم کی غلاظت اور گھروں اور ہوٹلوں کا ڈرینج اور سیوریج بھی اسی دریا میں ڈالی جاتی ہے جس سے دریا کا پانی اتنا گندہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے مچھلیوں کی زندگیاں تک خطرے میں پڑچکی ہیں۔ کسی وقت دریائے سوات کا پانی اتنا صاف اور شفاف تھا کہ اس کو لوگ پینے کے لیے استعمال کرتے تھے، لیکن اب یہ مختلف قسم کے امراض کا سبب بن رہا ہے ۔
2010ء میں سیلاب دریائے سوات میں اربوں روپے کا میٹریل بہا کر لایا تھا، جو دریائے سوات اور قوم کا اثاثہ تھا لیکن حکومت کی ناقص حکمتِ عملی کی وجہ سے چند ٹھیکے داروں اور بااثر لوگوں کے ذریعے یہ میٹریل دریا سے نکالا گیا جس کی وجہ سے دریائے سوات میں جگہ جگہ کھڈے پڑگئے۔ اس وقت بھی حالیہ معمولی سیلاب کی وجہ سے کافی جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ دریائے سوات کو اپنی ذاتی ملکیت کا تصور ختم کیا جائے اور اس کے دونوں جانب اس کی زمین ہتھیانے کا عمل روک دیا جائے۔
ریاستِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دریائے سوات کی حدود میں غیر قانونی تجاوزات کا خاتمہ کرے۔ اس میں کسی بااثر شخصیت، سیاست دان اور عام آدمی کا خیال نہ رکھا جائے۔ دریائے سوات کے ساتھ شامل ہونے والی ندی نالیوں کی اصل حدود کو بھی بحال کیا جائے اور گاؤں اور دیہات کے لوگ ان ندی نالوں کو ذاتی ملکیت تصور نہ کریں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ندی نالے اور دریا اپنی قدرتی حدود میں بہیں گے، اور سیلاب آنے کی صورت میں خطرات اور نقصانات نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔
ایک نہایت اہم مسئلہ دریا کی آلودگی کا ہے۔ اس کے لیے بھی ضرورت اس اَمر کی ہے کہ مقامی انتظامیہ کے متعلقہ افسران سختی سے لوگوں کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ دریا میں ڈرینج اور سیوریج سمیت کسی بھی قسم کی گندگی ڈالنے سے باز رہے۔ کیوں کہ ان ندی نالوں اور دریا میں گند ڈالنے کی وجہ سے آبی حیات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
اگرچہ ماحولیات کے حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل در آمد کا کوئی تصور موجود نہیں۔ اس پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
کہاجاتا ہے کہ دنیا میں آنے والی جنگیں پانی پر بھی ہوں گی، اس لیے ہمیں اپنے پانی کے وسائل ضائع کرنے کی بجائے ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر دریائے سوات کو قبضہ مافیا سے نجات دلائے اور اس میں کسی سیاسی دباؤ کو خاطر میں نہ لائے۔ اس سلسلے میں ماحول دوست وکلا سے التجا ہے کہ وہ دریائے سوات اور قانون پسند عوام الناس کی طرف سے ہائی کورٹ میں ایک رٹ داخل کرائیں اور دریائے سوات اور قانون پسند عوام الناس کو انصاف دلائیں۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔