تبدیلی سرکار کے دو سال مکمل ہوگئے۔ 20 اگست کو صدرِ مملکت نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کیا۔ یوں روایتاً اور قانوناً حکومت تیسرے سال میں داخل ہوگئی۔ گذشتہ ہفتے مسلسل وفاقی وزرا نے باری باری قوم کے سامنے اپنی دو سالہ کارکردگی پیش کی۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے ہمدرد ووٹرز اور لکھاریوں نے عمران خان کی ستائش میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے۔ کچھ ایسے کارنامے بھی خان کے نام کر دیے، جن کی خان سرِ عام مخالفت کرتے رہے۔ مثلاً پشاور میں حال ہی میں شروع کی گئی ’’بس سروس‘‘ وغیرہ۔
برعکس اس کے کہ مخالفین ان دوسالوں کو ملک و قوم کے لیے بدقسمتی، بدنصیبی اور بدشگونی سمجھتے ہیں۔ حقیقت حال کیا ہے؟ حکومتی کارکردگی کیسی ہے اور عوام کتنے مطمئن ہیں؟ اس قسم کے اور بھی ڈھیر سارے سوالات ہیں، لیکن جوابات پانے کے لیے کسی خاص فلسفے کی ضرورت ہی نہیں۔ جیسے آج ہی بازار میں نکلیں، اور اشیائے خور و نوش کی قیمتیں پوچھ لیں۔ یا پھر بجلی اور گیس کے بل اٹھا کر دیکھ لیں، تو ’’حکومتی کارکردگی‘‘ خود بخود واضح ہوجائے گی۔
جمہوری رویہ لیکن یہ ہے کہ تین سال مزید صبر کیا جائے۔ پھر نئے انتخابات ہوں اور اس کے نتیجے میں یہ معلوم کیا جاسکے کہ عوام سرکار سے مطمئن ہیں یا نہیں؟
موجودہ دو سالہ کارکردگی کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو حق ہے کہ اولذکر اپنی تعریف کرے، جب کہ مؤخر الذکر تنقید۔
لیکن آج جو موضوع زیرِ بحث ہے، وہ پارلیمان اور وزرا کی کارکردگی کے حوالے سے ہے۔ کیوں کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ جمہوریت کا مطلب جو پڑھایا اور سمجھایا گیا ہے، کچھ یوں ہے: ’’جمہور کی حکومت، جمہور کے لیے، جمہور کے ذریعے۔‘‘ اس تعریف کی بدولت پارلیمان ایک ایسی جگہ ہے جہاں جمہور (عوام) کے نمائندے، جمہور کے لیے، جمہوری عمل کے ذریعے فیصلے کرتے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستانی پارلیمان کی کارکردگی کیا رہی؟ یہ جاننا از حد ضروری ہے۔
چند دن پیشتر ایک مشہور انگریزی اخبار میں یک سالہ پارلیمانی کارکردگی رپورٹ آئی ہے، جس کے مطابق: ’’ایک سال میں حکومت نے 31 آرڈیننس جاری کیے ہیں، جب کہ صرف 29 بل پاس کیے ہیں۔ ان 29 بلوں میں سے 12 ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ کے متعلق ہیں، جب کہ باقی ماندہ 17 میں سے 3 بل چیف آف آرمی سٹاف کی مدتِ ملازمت میں توسیع بارے ہیں۔ باقی رہ گئے 14، تو ان میں بھی کوئی بل براہِ راست عوامی ضروریات یعنی تعلیم، صحت، پانی، انصاف وغیرہ سے متعلق نہیں۔‘‘
اب اگر پارلیمان مکمل ایک سال میں بھی عوامی فلاح و بہبود کے لیے کوئی ایک بھی قانون پاس نہ کرے، تو ایسی پارلیمان اور حکومت کی کارکردگی کیا ہوگی؟
رہ گئی بات آرڈیننسوں کی، تو حضورِ والا! یہ جمہوریت ہے، کوئی آمریت یا بادشاہت نہیں، جہاں ’’شاہی فرمان‘‘جاری کیے جاتے ہیں۔ یہاں ایک منتخب پارلیمان ہے، وفاقی وزرا اور وفاقی کابینہ ہے۔ پارلیمان کے اجلاس ہوتے ہیں۔ ہر اجلاس میں شرکت کے بدلے ممبران کو تنخواہیں اور مراعات ملتی ہیں، لیکن عوام کے لیے قانون سازی مذکورہ یک سالہ رپورٹ سے واضح ہے۔
اسی طرح ’’پل ڈاٹ‘‘ پارلیمانی امور پر نظر رکھنے والا ایک نجی ادارہ ہے، جس نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں وفاقی و صوبائی وزرا کی کارکردگی اور حاضری کی روداد ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزیرِاعظم عمران خان کی ابھی تک پارلیمانی سیشنوں میں حاضری آٹھ فیصد سے کم ہے۔ بعینہٖ قومی اسمبلی میں اکثریتی وزرا اور قائدِ حزبِ اختلاف کی حاضری بھی نہایت کم ہے۔ صوبائی وزرائے اعلیٰ میں بھی محمود خان (خیبر پختونخوا) اور عثمان بزدار (پنجاب) دونوں کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔ حالاں کہ دونوں تبدیلی سرکار کا ’’ٹریڈ مارک‘‘ ہیں۔
اس طرح پارلیمانی کارروائی اگر دیکھی جائے، تو وہاں بھی فقط سیاسی تقریریں، ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات کا شور ہے۔ عوامی فلاح و بہبود نام کی کوئی کارروائی پارلیمان میں نہیں ہوتی۔
قارئین، اب اگر ایسی ہی کارروائی پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں، تو پھر مبارک ہو سرکار کو۔ جمہوری نظام میں پارلیمان امیدوں کا مرکز ہوتا ہے۔ ملک و قوم کی بہتری کے لیے فیصلے پارلیمان میں کیے جاتے ہیں، لیکن پاکستانی پارلیمان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔
باجود اس ’’کارکردگی‘‘ کے ’’جشن‘‘ ماننا عجب نہیں، ثم العجب ہے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔