کائنات کی تخلیق سے جاری لمحے تک، تغیر نے انسانی زندگی پہ گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ آفات، مسائل، مشکلات، امراض، وبا، بھوک، غربت اور دیگر ہزاروں مسائل کا سامنا بنی نوع انسان کو رہا ہے اور رہے گا۔ لیکن حضرتِ انسان کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ہر مشکل میں سے کامیابی کا راستہ نکال لیتا ہے۔ ہر پریشانی میں سے ایک نئی روشنی سامنے لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اللہ نے اس کو مخلوقات میں اشرف ہونے کا جو اعزاز دیا۔ یہ انسان کوتاہیوں کے باوجود بہت سے حوالوں سے اس اعزاز کا حق ادا بھی کر رہا ہے، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے لیے نئے مواقع تلاش کر لیتا ہے۔ قدرت کے سربستہ رازوں کو قدرت کی ہی عطا کردہ عقل کی مدد سے وا کرتا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ یہ علم کا ایک ایسا سمندر ہے جس کی کوئی حد ہے، نہ اختتام، بلکہ اس کو دوام ہے اور یہ رہتی دنیا تک ناقابلِ تسخیر رہے گا اور کوئی انسان اس کو تسخیر کرنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ سوائے اللہ کی ذات اور اور اس کے برگزیدہ انبیاء علہیم السلام اور چنے گئے اولیا کے۔ اس علم کے سمندر سے ہی انسان اپنی مشکلات، پریشانیوں، آفات کا حل تلاش کرتا ہے اور عارضی زندگی میں اپنا نام خدمتِ خلق کے حوالے سے نقش کر جاتا ہے۔
کرونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس وقت تمام ذہین دماغ علم کے سمندر میں تیرتے ہوئے اس وبا کا حل تلاش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایک زمانے تک کینسر ناقابلِ علاج تصور ہوتا تھا لیکن اب وہ قابل علاج کے ضمرے میں شمار کیا جانے لگا ہے۔ ایسا ہی مستقبلِ قریب میں کرونا اور ایڈز جیسے امراض کے ساتھ ہو گا۔ یہ امراض انسان کو جہاں ایک طرف مشکل کا شکار کرتے ہیں، وہاں سوچ کے زاویے بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس بھی ایک ایسا ہی مرض ہے جو اب قابلِ علاج تصور ہوتا ہے۔ لیکن اس کا پھیلاؤ ایک ایسا ناسور ہے جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 325 ملین افراد وبائی بی اور سی یرقان کا شکار ہیں۔ صرف پاکستان میں پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل "PHRC” کے اعداد و شمار کے مطابق ہیپاٹائٹس بی اور سی کے 12 ملین کیسز موجود ہیں۔ اور اگر پاکستان کو بھی عالمی ادارۂ صحت کے 2030ء میں ہیپاٹائٹس فری دنیا کے نعرے کے ساتھ ملنا ہے، تو ابھی بہت سفر باقی ہے اور مشکل بھی ہے یہ سفر۔ لیکن کوشش سے اس مشکل سفر کو آسان کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ ورلڈ ہیپاٹائٹس الائنس کے ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے 2020ء کے اعداد و شمار دیکھیں، تو حیرت کا جھٹکا لگتا ہے کہ 290 ملین افراد پوری دنیا میں اس حقیقت کو جانتے ہی نہیں کہ وہ اس مرض کا شکار ہیں۔ وجہ ٹیسٹ کا نہ ہونا ہے۔ اور اس سال کا مرکزی خیال یا بنیادی نعرہ ہی ایسے لا علم لوگوں کی تلاش ہے جنہیں اپنے مرض کا علم نہیں، یعنی "Missing Millions”۔
یہ لاعلمی جگر کے دیگر امراض کے علاوہ جگر کے کینسر کا باعث بھی بن رہی ہے۔ اے بی سی ڈی ای اقسام میں سب سے زیادہ متاثرین بی اور سی کے آ رہے ہیں۔ صرف ہیپاٹائٹس بی اور سی سے مجموعی اموات کم و بیش 1.3 ملین سالانہ ہو رہی ہیں۔ یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ ہر دس میں سے نو افراد تشخیص نا ہونے کی وجہ سے اپنے مرض سے لاعلم ہیں۔ یہ مرض کو مزید بڑھاوا دینے کی اہم وجہ بھی ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق صرف ہیپاٹائٹس بی کے 10 فیصد اور ہیپاٹائٹس سی کے صرف 19 فیصد مریض اپنے مرض کے بارے میں جانتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس بی کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب زچہ و بچہ ہے، اور پوری دنیا میں 42 فیصد بچوں کو پیدائش کے وقت اس مرض کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ جب کہ ہیپاٹائٹس سی غلط طریقے سے خون کا انتقال، استعمال شدہ انجکشن، منشیات کا استعمال وغیرہ سے زیادہ پھیلتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت 2030ء تک دنیا کو ہیپاٹائٹس فری کرنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن ایسا ممکن اس صورت ہوگا جب تمام ممالک اور افراد اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کا ادراک کریں۔
ڈاکٹر محمد نصیراور ڈاکٹرندیم اقبال ماہرِ امراض جگر و معدہ، شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آبادہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنے آگاہی پیغام میں بتایا کہ ہیپٹاٹائٹس بنیادی طور پر جگر کی سوزش ہے، اور اس حوالے سے یرقان کی دو اہم اقسام پیلا یرقان اور کالا یرقان ہیں، جن کا شکار عمومی طور پر مریض ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پیلا یرقان پھیلنے کی وجوہات اس کی پانچ اقسام میں سے اے اور ای اقسام بنتی ہیں۔ جب کہ کالا یرقان اس وائرس فیملی کی بی اور سی اقسام سے پھیلتا ہے۔ ڈاکٹر محمد نصیر صاحب کے مطابق بھی اس کا سب سے اہم مرحلہ تشخیص ہی ہے جس کی مدد سے مریض کو بچایا جا سکتا ہے۔
وجوہات کو زیرِ بحث لاتے ہوئے ڈاکٹر ندیم اقبال نے خون کی غیر محفوظ منتقلی، ڈرگز، ماں سے بچے، اور عطائی ڈاکٹروں(بالخصوصی دانتوں کے عطائی ڈاکٹر) کو کالے یرقان کی وجوہات قرار دیا۔
پیلا یرقان، ڈاکٹر نصیر کے مطابق زیادہ خطرناک نہیں لیکن بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے یہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ جب کہ کالا یرقان خطرناک اس لیے ہے کہ اس کی علامات بظاہر جلد ظاہر نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے یہ جگر کو خاموشی سے متاثر کرتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ندیم اقبال کا کہنا تھا کہ پیلے یرقان سے بچاؤ کے لیے اہم ہے کہ صفائی کا خیال رکھاجائے۔ خوراک صاف ستھری اور صحتمندانہ ہو۔ جب کہ کالے یرقان سے بچاؤ کے لیے محفوظ انتقالِ خون یقینی بنایا جائے، سرنج کا کسی بھی صورت دوبارہ استعمال نا کیا جائے۔ عطائی ڈاکٹروں سے مکمل بچا جائے اور ناک یا کان چھدواتے ہوئے اوزاروں کی صفائی کا یقین کر لیا جائے۔
اس خطرناک مرض سے اب بچا کیسے جائے، کس طرح عالمی ادارہ صحت اور ورلڈ ہیپاٹائٹس الائنس جیسے اداروں کی مدد کی جائے کہ اس حوالے سے ہم کہہ سکیں کہ ہم نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے؟ سب سے پہلے مرحلے میں ہم دیکھیں، تو دنیا میں آنے والا بچہ اس کا سب سے پہلا شکار ہے۔ تمام نوزائیدہ بچوں کو ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین ہر صورت لگوائی جائے، تاکہ وہ اس سے بچ سکیں۔ اس کے علاوہ حاملہ خواتین کا ہیپاٹائٹس کا باقاعدگی سے حمل کے دوران میں ٹیسٹ ہونا بھی اس کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لا علمی ایک اور اہم مسئلہ ہے اس کے پھیلاؤ کا۔ تمام افراد کو اس کا ادراک ہونا ضروری ہے جو مریض ہیں انہیں اس مرض کا، جو مریض نہیں انہیں اس سے احتیاط کا۔ اس کے احتیاط، علاج، ادویہ تک ہر ایک کی رسائی ممکن بنا کے ہم اس سے نمٹ سکتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کی بروقت تشخیص اور علاج سے ہی ہم جگر کے کینسر اور جگر کے دیگر مہلک امراض سے بچ سکیں گے۔ ہم جتنا اس مرض سے احتیاط برتیں گے، اتنے ہی زیادہ مواقع اس سے لڑنے کے پیدا ہوں گے۔ اپنی صحت کا ضامن ہمیں خود بنتے ہوئے اس کے علاج اور تدارک کے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔