سیاحت کے شعبے کو دوبارہ کھولنے کے وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے اس کاروبار سے وابستہ افرد نے خوشی کے شادیانے بجائے۔ اگرچہ طبی ماہرین کی رائے عمومی طور پرا س کے برعکس ہے، لیکن لوگ بے روزگاری اور قرضوں تلے دب کر مرنے سے کورونا سے مقابلہ کرنے کا خطرہ مول لینا بہتر خیال کرتے ہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقوں اور خاص طور پرآزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد روزی روٹی کمانے کے لیے سیاحت کی صنعت پر انحصار کرتی ہے۔ کوویڈ 19 کے خطرے کے باوجود بیشتر افراد موسمِ گرما میں سیاحوں کی آمد و رفت سے ہونے والی آمدن پر رضامند نہیں۔
گذشتہ برسوں کے دوران میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ملکی اور ایک محدود حد تک غیر ملکی سیاحوں کی دلچسپی کے سیاحتی مقام کے طور پر ابھرے ہیں۔ فلک بوس پہاڑی مقامات اور دلکش قدرتی مناظر اور مناسب سیکورٹی کی بدولت 2018ء میں 14 لاکھ سے زیادہ سیاحوں نے وادیِ نیلم اور راولاکوٹ کا رُخ کیا۔
یوں 2019ء میں سیاحوں کی آمد بڑھ کر 15 لاکھ ہوگئی۔ امید کی جارہی تھی کہ 2020ء میں تقریباً 20 لاکھ سیاح آزاد کشمیر کا دورہ کریں گے۔ ان سیاحوں میں سے بیشتر سندھ اور پنجاب سے آتے ہیں، جہاں جون اور جولائی میں درجۂ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے، اورحیات جرم بن جاتی ہے۔
یوں لوگ تفریح کے لیے پہاڑوں کی طرف بھاگتے ہیں۔
سیاحوں کی تعداد میں ممکنہ اضافے کے مدنظر حالیہ برسوں میں خاص طور پر وادیِ نیلم اور پونچھ جیسے علاقوں میں لوگوں نے بینکوں یا رشتے داروں سے قرض اُٹھا کر بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر تعمیر کیا تھا۔
آزاد جموں وکشمیر کی حکومت نے تتہ پانی، کوٹلی، پونچھ اور ضلع مظفرآباد میں کئی گیسٹ ہاؤسز جنہیں کسی زمانے میں ’’ڈاک بنگلے‘‘ بھی کہا جاتا تھا، کی تزئین و آرائش کی اور انہیں سیاحوں کے لیے کھول دیا۔
سیاحت کے محکمہ کی سیکرٹری مدحت شہزاد کہتی ہیں کہ آزاد کشمیر میں سیاحت کے شعبے کی ترقی کے بارے میں مزید بہتری لانے کے لیے ان کی حکومت نے ایک تفصیلی سروے بھی کیا ہے۔ کئی ایک تاریخ ساز منصوبے زیرِ غور تھے، لیکن کوویڈ19 کے مہلک مرض نے تمام منصوبوں پر کام کی رفتار کوسست کردیا، اور سیاحت کی صنعت کوسب سے زیادہ دھچکا پہنچایا۔
اس پس منظر میں ’’پونچھ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘‘ نے آزادکشمیر کی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس شعبے کی بحالی کے لیے سیاحت سے وابستہ کاروباری افراد اور اداروں کو آسان شرائط پر قرض فراہم کرے۔
تجاویز میں
٭ چند سالوں کے لیے ٹیکس معافی۔
٭ رعایتی نرخوں پر بجلی کی فراہمی
٭ اور نرم قرضے شامل ہیں۔
ابھی تک آزادکشمیر کی حکومت نے اس شعبے کی مدد کے بارے میں کوئی عندیہ دیاہے اور نہ کوئی کسی قسم کی فکر مندی ہی دکھائی ہے۔
آزاد کشمیر حکومت خطے میں کوویڈ 19 کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر سیاحت کے دوبارہ آغاز کے بارے میں ابھی تک تذبذب کا شکار ہے۔ آزادکشمیر میں اب تک 444 کورونا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔ 200 سے زائد مریض مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہیں، لیکن حالیہ چند ہفتوں سے نئے کیسوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔
صحت کے ماہرین خطے میں کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ سے سخت پریشان ہیں۔ راولاکوٹ کے فوجی اسپتال جسے ’’سی ایم ایچ‘‘ کہا جاتا ہے، کی ڈاکٹر ہادیہ عزیز کا کہنا ہے کہ سیاحت کی صنعت کو فوری طور پر دوبارہ نہیں کھولا جانا چاہیے۔ آزاد کشمیر میں صحت کی سہولیات بالخصوص ’’آئی سی یو‘‘ کم اور بہت ہی کم ’’وینٹی لیٹر‘‘ ہیں۔ ان کاکہناہے کہ اب وائرس کاپھیلاؤ عروج پر ہے۔ حکام کو سیاحتی مقامات کو دوبارہ کھولنے کے منصوبو ں پر عمل درآمد کے حوالے سے زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ اس سے پورے علاقے کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، اور ہمارے پاس بڑی تعداد میں مریضوں کی دیکھ بھال کی سہولیات بھی نہیں ہیں۔
16 لاکھ آبادی والے گلگت بلتستان میں اب تک کورونا وائرس کے 952 کیس منظر عام پرآچکے ہیں۔ نئے کیسوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اورشہری خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ دوسری طرف گذشتہ نومبر سے تمام سیاحتی مقامات بند ہیں۔
ابتدائی طور پر سردیوں کے موسم کی وجہ سے اور بعد میں وبائی مرض کی وجہ سے لوگوں کی نقل و حرکت رک گئی تھی، جس کی وجہ سے سیکڑوں افراد بے روزگار ہوگئے تھے۔ اب گلگت بلتستان میں ہوٹل، ٹور آپریٹرز اور ٹرانسپورٹر اپنے کاروبار کھولنے کے لیے بے چین ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ہوٹلوں اور سیاحتی مقامات کو فوری طور پر نہ کھولا گیا، تو وہ بھرپور احتجاج کریں گے۔
گلگت بلتستان سے چھپنے والے ایک معروف اخبار نے اطلاع دی ہے کہ سیاحتی صنعت کے مالکان اس قدر عاجز آچکے ہیں کہ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی، تو وہ بیس ہزارسے زائد ملازمین کو ملازمت سے برخاست کردیں گے۔ کیوں کہ ان کی ماہانہ اجرت نہیں دے سکتے۔ بے روزگاری کا ایک طوفان سروں پر منڈلا رہاہے۔ اگلے چند دنوں تک سبک دوش ہونے والے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان سیاحت کو دوبارہ کھولنے کے فیصلے کے حق میں نہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ مقامی صحت کی سہولیات کورونا وائرس میں اضافے کو روکنے کے لیے کافی نہیں۔ ممکن ہے کہ ان کی جگہ عبوری وزیراعلیٰ ان کے برعکس اقدامات کا اعلان کردے ۔
سیاحت کا گلگت بلتستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسا کردار ہے۔ اسی کے سہارے اکثر گھروں کے چولہے روشن ہیں۔ گلگت میں قائم ’’ٹورازم ڈیپارٹمنٹ‘‘ کے مطابق 60 ہزار افراد اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ گذشتہ چھے سات سالوں میں اس خطے میں سیاحت کے شعبے میں خاطرخواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خاص طورپر امن وامان کی صورت حال بہتر ہونے کے بعدلوگوں کی بڑی تعداد نے ان علاقوں کا رُخ کیا، حتیٰ کہ ٹینٹ لانے کی جگہ بھی بعض اوقات ملنا مشکل ہوجاتی تھی۔ حکومت پاکستان کا ’’ای ویزا سسٹم‘‘ متعارف کرانے کے بعد غیر ملکی سیاحوں نے گلگت بلتستان کو دنیا بھر میں ایک خوبصورت مقام کے طور پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سال ہم سوچ رہے تھے کہ شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کی طرح کے کسی مہمان کی ہنزہ یا بنجوسہ میں میزبانی کریں گے، مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
گلگت بلتستان کے حکام 2020ء میں 25 لاکھ سے زیادہ سیاح اور تقریباً 550 ملین روپے کی آمدنی کی توقع کر تے تھے۔ آمدن تو دور کی بات وبائی صورتحال کے پیشِ نظر ان علاقوں میں جاری متعدد تعمیراتی منصوبوں کو بھی سیل کردیا گیا۔
یہ وقت ہے کہ سیاحت کے شعبے سے وابستہ افراد اور اداروں کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جائے، تاکہ رفتہ رفتہ ان کی سرگرمیاں بحال ہوسکیں اور یہ قرضوں تلے دب کرتباہ ہی نہ ہوجائیں۔ اس شعبے کے لوگوں سے اعلیٰ سطحی مشاورت کا اہتمام بھی کیا جائے۔ کیوں کہ کورونا سے بچ نکلنے کے بعد سیاحت پاکستان کا سب سے بڑا ’’کماؤ پتر‘‘ ہوگا۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔