افغانستان میں تشدد کی لہر میں اضافے کے کئی محرکات سامنے آرہے ہیں، جس میں سب سے زیادہ تشویش کا باعث داعش خراساں شاخ کی کارروائیاں ہیں۔ دوحہ امن معاہدے کے بعد ان تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا کہ افغانستان میں کئی ایسے جنگجو گروپ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گے، جن کے مفادات بدامنی کے شکار افغانستان سے وابستہ ہیں۔
حالیہ دنوں ایک خبر رساں ایجنسی کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، جب کہ اس سے قبل کابل میں ایم ایس ایف کے زیرِ انتظام اسپتال کے زچہ بچہ وارڈمیں داعش (دولتِ اسلامیہ خراساں) کی بدترین دہشت گردی نے امن پسند عوام کو دنیا بھر میں سوگوار کردیا۔ زچہ بچہ وارڈ میں جس طرح وحشت و بربریت کا مظاہرہ کیا گیا، وہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ افغان طالبان نے دونوں واقعات سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ اماراتِ اسلامیہ افغانستان نے واضح کیا کہ وہ اسپتالوں پر حملے نہیں کرتے۔ انہوں نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت بھی کی۔
واضح رہے کہ اشرف غنی نے جب فوج کو حملے کے احکامات دیے، تو امریکی صدر کے خصوصی معاون برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے، اس اَمر کو بھی واضح کیا کہ زچہ بچہ اسپتال پر حملہ افغان طالبان نے نہیں بلکہ داعش نے کیا۔
افغانستان میں تشدد کے واقعات میں کمی نہ آنے کی بنیادی وجوہ میں جہاں جنگجو گروپوں کی من مانی ہے، تو دوسری جانب کابل انتظامیہ کی جانب سے دوحہ مذکرات معاہدے کے تسلسل میں رکاؤٹ کا باعث بننا بھی ہے۔ گوکہ کابل انتظامیہ کے ساتھ افغان طالبان کا کوئی براہِ راست معاہدہ نہیں ہوا، تاہم کابل انتظامیہ امریکہ کی حاشیہ بردار حکومت ہے۔ اس لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کابل انتظامیہ دوحہ مذاکرات کے معاہدے میں شامل تھی یا نہیں۔ افغان طالبان پر امریکی کانگریس کے ایک رکن نے الزام لگایا کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد نہیں کر رہے ۔ ری پبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن مین والٹز نے افغان طالبان کی جانب سے زچہ بچہ وارڈ حملے سے لاتعلقی پر عدم یقین کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ افغان طالبان قیامِ امن پر یقین نہیں رکھتے۔ یہاں یہ اَمر غور طلب ہے کہ افغان طالبان نے دوحہ مذاکرات معاہدے کے بعد غیر ملکی افواج پر کوئی حملہ نہیں کیا۔ دوم، افغان سیکورٹی فورسز پر بھی اپنے دفاع میں حملے کیے ۔ اماراتِ اسلامیہ کا مؤقف رہا ہے کہ وہ معاہدے کے مطابق بین الافغان مذاکرات کے لیے اعتماد سازی پر مشتمل لائحہ عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے سیاسی ڈھانچے میں بھی تبدیلی کی۔ وہیں حالیہ دنوں حیرت انگیز طور پر اپنی صف میں پہلے سے موجود شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے سرپل صوبے کے بلخاب شہر کے گورنر کمانڈر مولوی مہدی مجاہد کا 22 منٹ کا طویل انٹرویو بھی جاری کیا، جن کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے۔ اسی طرح ملا عمر مجاہد مرحوم کے صاحبزادے مولوی محمد یعقوب کو عسکری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ مولوی محمد یعقوب اماراتِ اسلامیہ کے نائب امیر بھی ہیں۔ اس طرح ان کی تعیناتی سے ایسے کئی امور میں براہِ راست فیصلے سازی ممکن ہوسکے گی جو سیاسی و عسکری ونگ کی مشاورت کے لیے ضروری خیال کی جاتی ہے۔ اماراتِ اسلامیہ کے ان اقدامات کو سراہا گیا کہ بین الافغان مذاکرات پر عمل درآمد کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن یہاں کابل انتظامیہ کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے میں انتہائی سست روئی و جارحانہ لاحاصل بیانات سے امن کی فضا کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
زلمے خلیل زاد نے واضح کیا ہے کہ کابل انتظامیہ و افغان طالبان داعش کے پھیلائے ہوئے جال سے بچیں جو امن کی فضا کو خراب کرکے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کا یہ کہنا صائب ہے۔ کیوں کہ ملتِ اسلامیہ میں اختلافات و فرقہ واریت کا فائدہ اٹھا کر ہی داعش نے عراق و شام میں سب سے زیادہ مسلمانوں ہی کو نقصان پہنچایا۔ افغانستان میں داعش کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسی متفقہ حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے جو ایک پیچ پر ہو، اور مملکت میں موجود ناپسندیدہ عناصر کے خلاف مشترکہ کارروائیوں پر اتفاق رائے رکھتی ہو۔ اس کے لیے سب سے بہترین پلیٹ فارم بین الافغان مذاکرات کی کامیابی کے بعد ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے کابل انتظامیہ کو وقت ضائع کرنے کے بجائے جلد ازجلد ایسے اقدامات میں سبک رفتاری کا مظاہرہ کرنا چاہیے جس سے بین الافغان مذاکرات کی راہ میں رکاؤٹوں کا خاتمہ ہو اور افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈر یکسو ہوکر تشدد کے خاتمے اور جنگ بندی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہوجائیں۔
داعش خراساں کی افغانستان میں موجودگی خطے میں ایک خطرناک عنصر ہے۔ جب تک جنگجو گروپوں پر رٹ قائم نہیں کی جاتی، اُس وقت تک پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہنے کے خدشات ہیں۔ گذشتہ دنوں داعش خراساں کے جنگجو کمانڈر اسلم فاروقی کی گرفتاری کی تصدیق خفیہ ادارے این ڈی ایس نے کی تھی۔ ادارے کی طرف سے اسلم فاروقی کی ایک تصویر بھی جاری کی گئی، جس کی ذرائع نے تصدیق کی۔ اسلم فاروقی اورکزئی ایجنسی میں ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات اور جرگوں میں ہمیشہ سے پیش پیش رہے اور وہ ایک عرصے تک کالعدم شدت پسند تنظیم کا حصہ بھی رہے۔ پاکستانی حکام نے اسلم فاروقی کا افغانستان سے حوالگی کا مطالبہ کیا تھا، جسے کابل انتظامیہ نے رد کردیا۔ اسلم فاروقی پاکستان میں کئی بڑے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے اور افغانستان کی سرزمین، مملکت کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے۔ 2014ء میں جب قبائلی علاقوں میں آپریشن ضربِ عضب کا آغازہوا، تو کئی جنگجو پاکستان سے فرار ہوکر افغانستان روپوش ہوگئے تھے۔ اسلم فاروقی اور ان کے حامیوں کا تقریباً 1300 افراد پر مشتمل گروپ بھی اورکزئی ایجنسی چھوڑ کر کرم کے راستے افغانستان منتقل ہوا۔ جس کے بعد مبینہ طور پر انہیں کابل انتظامیہ کے بعض عناصر کی جانب سے پشت پناہی و سہولت کاری فراہم کی گئی۔ پاکستانی ریاست کئی بار افغانستان کی سرزمین مملکت کے خلاف استعمال ہونے کے شواہد فراہم کرچکی ہے لیکن کابل انتظامیہ کا رویہ غیر معاوندانہ ہی رہا۔
افغانستان میں داعش کی بڑھتی سرگرمیوں اور سہولت کاری پر خود سابق صدر حامد کرزئی بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ جب کہ اماراتِ اسلامیہ نے بھی کئی بار واضح کیا کہ کابل انتظامیہ مبینہ طور پر داعش کی سرپرستی کررہی ہے۔ قابلِ ذکر پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ امریکہ تسلسل کے ساتھ بھارت کو افغان طالبان سے تعلقات بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتا آرہا ہے۔ حالیہ دنوں ایک مرتبہ پھر انڈیا سے کہا گیا کہ وہ افغان طالبان سے دوسرے ممالک کی طرح روابط بڑھائیں۔ افغان طالبان نے اس حوالے سے اپنا واضح مؤقف دیا ہے کہ ان کے سیاسی دفتر کا مقصد خطے و دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو قائم کرنا ہے۔ تاہم بھارت، افغانستان میں جس طرح پاکستان کے خلاف اپنے ایجنڈے پر قائم ہے، اس سے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ بارہا ان تحفظات کا اظہار کیا جاچکا ہے کہ انڈیا، پاکستان کے خلاف، افغانستان میں موجود جنگجو گروپوں کو استعمال کرتا ہے۔ افغانستان میں امن کے لیے عالمی برادری کو کابل انتظامیہ اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک صفحے پر لانے کے لیے غیر جانب داری کی پالیسی اپنانا ہوگی۔ دوحہ امن مفاہمتی عمل کا معاہدہ اس کے لیے ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ پائدار امن و تشدد کے خاتمے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے ذمے داری کا احساس کرنا ہوگا۔ افغان عوام چار دہائیوں سے جاری جنگ سے تنگ آچکے ہیں، انہیں امن کا موقع فراہم کرنے کے لیے فروعی مفادات کو پسِ پشت ڈالنا ہوگا۔ کابل انتظامیہ دوحہ امن مذاکرات معاہدے کی شق وار معاملات پر نیک نیتی سے عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ کیوں کہ اس معاہدے کی توثیق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کرچکی ہے۔ان حالات میں کابل انتظامیہ کے پاس کوئی جواز نہیں رہتا کہ وہ معاہدے سے روگردانی کرے۔ معاہدے پر جلد عمل درآمد سے داعش جیسی تنظیم کے خلاف بھرپور کاروائی ممکن ہو پائے گی۔ سانحات و پرتشدد کاروائیوں کو مل جل کر روکا جاسکے گا۔
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔