کرونا سے ہونے والی بیماری، تکلیف اور اموات اپنی جگہ، لیکن اس وبا کی وجہ سے کچھ لوگوں کے کاروبار بھی چمک اٹھے ہیں، اور کچھ کی ذہانت یا حماقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ حکومتِ پاکستان کے کئی اقدامات بھی نہ صرف سمجھ سے بالاتر ہیں، بلکہ لاکھوں پاکستانیوں کے لیے شدید پریشانی اور دکھ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
گذشتہ دنوں دیر سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور نے دوبئی سے رابطہ کیا۔ اس نے کہا کہ میں عرق النسا کا مریض ہوں۔ ڈاکٹروں نے سرجری تجویز کی ہے۔ ایک مہینے سے پاکستان جانے کی کوشش میں ہوں۔ ہوائی جہاز کا ٹکٹ کرونا کی وجہ سے اب نہ ’’آن لائن‘‘ دستیاب ہے اور نہ ’’ٹریولنگ ایجنٹس‘‘ ہی کے پاس۔ آپ کو بذاتِ خود پاکستانی کونسلیٹ جا کر نقد رقم کے بدلے ٹکٹ لینا ہوتاہے۔ روزانہ ہزاروں لوگ کونسلیٹ کے باہر قِطاروں میں ذلیل ہوتے ہیں۔ شام کو نامراد واپس لوٹتے ہیں۔ اگلے دن دوبارہ قسمت آزمائی کے لیے جاتے ہیں۔ہاں، اگر آپ پاکستانی دفترِ خارجہ میں کسی کو جانتے ہیں، تو کونسلیٹ میں فون کرواکر گھر بیٹھے ٹکٹ حاصل کرسکتے ہیں۔مَیں بیمار آدمی ہوں۔ شدید گرمی، روزہ اور کرونا کی صورت حال میں کونسلیٹ کے باہر قطاروں کی زحمت کیسے اٹھاؤں؟
گذشتہ کل سعودی عرب سے ایک نہایت معزز اور بااثر پاکستانی نے فون پر بتایا کہ دو مہینوں سے مکہ مکرمہ میں لاک ڈاؤن کا شکار ہوں۔سعودی حکومت نے کمال مہربانی سے عمرہ کے لیے آنے والے تمام پاکستانیوں کی پاکستان واپسی کے سفر کا مفت انتظام کیا (جس پر پاکستان کی وزارتِ مذہبی اموراپنے آپ کو خوب شاباشی دی)۔ لیکن یہاں ملازمت کرنے والے پاکستانی شہری، حکومتِ پاکستان کی بدانتظامی پر خون کے آنسو رو رہے ہیں۔عام دنوں میں ہم اپنے دفتر میں بیٹھ کر پی آئی اے کی ’’ریزرویشن‘‘ بھی کرلیتے تھے اور پیسوں کی ادائیگی بھی کر لیتے تھے۔ کرونا کی وجہ سے حکومت نے ٹکٹ اور سفر کے جدید طریقے ترک کرکے گذشتہ صدی کا طریقہ اپنایا ہے۔ اب آپ کو ٹکٹ خریدنے کے لیے جدہ میں پاکستانی کونسلیٹ جانا پڑتاہے۔ وہاں دن بھر قِطار میں ذلت اٹھائیں۔ شام پانچ بجے کونسلیٹ بند ہوجاتاہے اور آپ سے کہا جاتاہے کہ کل تشریف لائیں۔
معزز پاکستانی نے بتایا کہ مکہ مکرمہ میں مکمل کرفیو ہے۔ آپ اپنی رہائش سے باہر نکل نہیں سکتے۔ پولیس رتی بھر رعایت نہیں کرتی۔ لیکن اگر آپ کسی نہ کسی طرح گھر سے نکلیں، کسی سعودی ٹیکسی ڈرائیور سے بات چلالیں، اور کئی گنا زیادہ پیسے دے کر جدہ پہنچ بھی گئے، تو ایک دن میں ٹکٹ کا حصول ممکن نہیں۔آپ رات کہاں گزاریں گے؟ کیوں کہ ہوٹل اور ریستورانوں سمیت تمام پبلک سروسز بند ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ ایک ہی جگہ دس پاکستانی رہتے ہیں، تو بھی آپ یہ نہیں کرسکتے کہ کسی ایک آدمی کو باقی لوگوں کے پاسپورٹ اور رقم دے کر ٹکٹ خرید لیں۔ آپ سب کو کونسلیٹ جا کر ذلت کے تمام مراحل سے گذرنا پڑے گا اور اس کے باوجود ٹکٹ کا حصول یقینی نہیں۔
مزید دکھ کی بات یہ ہے پاکستانی دفترِ خارجہ نے مبینہ طور پر یہ انتظام کیا ہے کہ امارات اور السعودیہ وغیرہ کے ٹکٹ بھی پاکستانی کونسلیٹ سے ملیں گے، اور بہر صورت آپ کو ٹکٹ لینے کے لیے کونسلیٹ کے سامنے قطاروں میں کھڑا ہونا پڑے گا۔اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ٹکٹ کی قیمت دوگنی کر دی گئی ہے، لیکن انتظام بد ترین کردیا گیاہے، اور ذلت اٹھائے بغیر ٹکٹ کا حصول ناممکن ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر عام حالات میں ٹکٹ کے حصول کا یہ گذشتہ صدی والا طریقہ تھا، تو کرونا میں آن لائن انتظام کو فروغ دینا چاہیے تھا، لیکن وزارتِ خارجہ کے بزرجمہروں نے معلوم نہیں کیا کہ سوچ کر ’’آن لائن ٹکٹنگ‘‘ کا باعزت طریقہ معطل کردیا ہے، اور ہر سمندر پار پاکستانی کو ذلیل کرنے کا پکا انتظام کر لیا ہے ۔
یاد رہے کہ سعودی عرب میں روزانہ اجرت پر کام کرنے والے پاکستانیوں کی حالت کا تصور کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ تنخواہ داروں کو بھی تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ اس میں حکومتِ پاکستان غمزدہ سمندر پار پاکستانیوں کی مشکلات کم کرنے کی بجائے ان کے زخموں پر نمک پاشی کا پورا سامان کیے ہوئے ہے۔
میری تمام صحافیوں سے گذارش ہے کہ داخلہ، خارجہ اور شہری ہوابازی کی وزارت سمیت ہر حکومتی وزیر سے اس عجیب انتظام کے بارے میں پوچھیں کہ آخر ’’آن لائن ٹکٹ‘‘ کا پہلے سے چلنے والا انتظام منسوخ کرکے قِطاروں والا یہ طریقہ رائج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔