ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ لاک ڈاؤن مکمل طور پر ہونا چاہیے یا جزوی طور پر؟ ہم اس حوالے سے بھی ابھی کوئی مکمل فیصلہ نہیں کر پائے کہ مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی ہونی چاہیے، یا نہیں؟ ہم اس معاملے پہ بھی گو مگو کی کیفیت کا شکار ہیں کہ اگر جماعت قائم کی جاتی ہے، تو نمازیوں کا درمیانی فاصلہ تین فٹ ہونا چاہیے یا چھے فٹ؟ درزی کی دکان کھلے گی یا نائی کی؟ ہمارا فیصلہ اس حوالے سے بھی غیر یقینی کا شکار ہے۔ ہم ابھی اس سوچ بچار میں ہیں کہ ہمیں قصائیوں کی دکانیں کھولنی چاہئیں یا سبزی فروٹ والی۔؟ ہم پریشان ہیں کہ آیا ہم سکولوں میں گرمیوں کی تعطیلات کا دورانیہ بڑھا دیں، یا حاضری کی طرف جائیں۔ سرکاری دفاتر ہوں یا نجی دفاتر، کارخانے ہوں یا فیکٹریاں، سمال انڈسٹریز ہوں یا بڑی صنعتیں، انہیں کھولنے یا بند کرنے کے حوالے سے نا ہمارے پاس واضح پالیسی ہے اور نا ہم اس حوالے سے اس سوچ کی طرف ہی جا رہے ہیں کہ کہیں جن مزدوروں کے لیے ہم لاک ڈاؤن نہیں کر پا رہے، انہی مزدوروں کی زندگیاں عارضی فیصلوں کی وجہ سے خطرے میں نا ڈال دیں۔
ایران میں جو کچھ ہوا اسے کچھ لوگ ہٹ دھرمی قرار دے رہے ہیں، تو کچھ کوتاہی۔ کچھ بھی ہو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایران میں مذہبی سوچ کی گرفت قدرے مضبوط ہے۔ اس حوالے سے جب ابتدائی اطلاعات آئیں، تو یہ سننے میں آیا کہ وہاں کے علما نے اس حوالے سے کمزور کردار ادا کیا، اور عوام کو وقت پہ آگاہ کرنے کے بجائے اس وبا کے خلاف سینہ تان کے کھڑے ہو گئے۔ نتیجتاً آج حالات آپ کے سامنے ہیں۔
اٹلی کی دوسری مثال ہے۔ وارننگ جاری ہوئی، نہ تو حکومت نے اور نا ہی اطالوی شہریوں نے اس کو خاطر میں لانا گوارا کیا۔ آج حال یہ ہے کہ فوجی ٹرک لاشیں ڈھو رہے ہیں، اور قبروں کے لیے جگہ کم پڑنا شروع ہو گئی ہے۔
امریکہ کو دیکھیے، عالمی وبا کا راستہ روکنے کے بجائے چین کی خبر لینا شائد زیادہ ضروری تھی اور امریکہ نے یہ کیا بھی۔ اس کا نتیجہ دیکھ لیجیے کہ روزانہ اوسطاً پانچ سو کے قریب لوگ جاں سے جا رہے ہیں۔
برطانیہ میں دیکھ لیں حالات کس نہج پہ جا رہے ہیں۔ کوتاہی اور اس وبا کو سنجیدہ نہ لینے کی وجہ سے اس وبا نے بورس جانسن تک کو نہ چھوڑا۔ اس کے مقابلے میں چین، جاپان، جنوبی کوریا اور سنگا پور نے اس وبا کو نہایت سنجیدگی سے لیا۔ اس حوالے سے فوری طور پر اقدامات کرنا شروع کر دیے، اور ان اقدامات کے نتائج آپ کے سامنے ہیں کہ وہاں اس وبا نے یقینی طور پر نقصان تو پہنچایا ہے، لیکن اس کا زور ان ممالک میں ٹوٹ رہا ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ مستقبلِ قریب میں وہاں سے اس وبا کے مٹ جانے کی نوید بھی سنائی دینے لگے۔ دنیا کے بہت سے ممالک ہیں جو اس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ اس حوالے سے ویکسین پہ نا صرف کام جاری ہے بلکہ روزانہ کی بنیاد پہ دنیا کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کیے جا رہے ہیں۔
قارئین، دنیا کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ اب آپ اپنے وطن پاکستان کے حالات سامنے رکھیے۔ اس بات میں دو رائے تو ہو ہی نہیں سکتیں کہ ہمیں اس نازک صورتحال میں حکومتِ وقت پہ تنقید کرنے کے بجائے اس کا ساتھ دینا چاہیے، لیکن یہ ساتھ کسی بھی صورت اظہارِ رائے کی آزادی کی قیمت پہ تو ہونے سے رہا۔ غلط کو غلط کہا جانا مخالفت برائے مخالفت نہیں، بلکہ یہ تو اصلاح کے لیے ہے۔ آپ اندازہ لگائیے کہ وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ تک اس وبا سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ اب ہنگامی بنیادوں پہ یقینی طور پر وزیراعطم پاکستان بھی ٹیسٹ کی زحمت سے گذرے، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس پوری صورتحال کے بعد بھی ہم لاک ڈاؤن کرنے یا نا کرنے کا فیصلہ نہیں کر پار ہے۔ وزرا کہتے ہیں تعداد 70 ہزار تک جا سکتی ہے، اور پھر ہم سارے کاروبار زندگی بھی کھول دیتے ہیں۔ اموات کی کم تعداد پہ ہم خوش ہوتے نظر آتے ہیں، یہ سوچے بنا کہ ابھی تو ہماری ٹیسٹنگ کی سہولت ہی مقررہ عالمی تعداد کے مطابق نہیں ہوسکی۔ پنجاب جیسے بڑے شہر میں، جس کی آبادی ہی 10کروڑ سے زائد ہے، وہاں روزانہ کی بنیاد پہ ٹیسٹ صرف 5 ہزار ہو رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا ہرگز بے جا نہیں کہ ابھی تو تعداد ہمارے اندازوں سے زیادہ بڑھے گی۔ ابھی کامیابی کے دعوے صرف اور صرف دیوانے کی بڑھک ہیں، اور کچھ نہیں۔ ہم کرونا پہ جگتیں بنانے میں مصروف ہیں اور کرونا ہماری کمر توڑ رہا ہے۔
ایک ماہ، صرف ایک ماہ مکمل کرفیو نافذ ہو جائے، تو حالات کیا ہوں گے؟ لاک ڈاؤن کے دوران ہم نے دیکھا کہ حکومت کی طرف سے تو محدودے چند علاقوں کے علاوہ کہیں بھی راشن کی تقسیم ممکن نہ ہوسکی۔ حکومتی سطح پہ بھی کچھ ایم پی ایز اور ایم این ایز نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ تقسیم یقینی بنائی۔ ورنہ اکثریت تک راشن تو عام عوام نے پہنچایا۔ فاؤنڈیشن فار پور سولز، جے ڈی سی، اخوت اور اس جیسے بیشمار ادارے ہیں جو اس حوالے سے کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔ انفرادی کوششیں اس کے علاوہ ہیں، تو کیا کوئی بھوکا سویا؟ نہیں! مکمل کرفیو ایک ماہ کا لگا دیا جائے، تو کم از کم اس وبا سے نمٹنے میں تو مدد مل سکتی ہے، اور جہاں تک بات ہے غربا میں راشن تقسیم کی، تو وہ بے فکر رہیں۔ یہ قوم دنیا میں عطیات دینے کے حوالے سے مشہور ہے اور راشن بھی یہ پہنچا دے گی ضرورت مندوں تک، اگر حکومت بے بس ہے تو۔ لیکن ہم لاک ڈاؤن یا کرفیو جیسا نظام لاگو کرنے یا نا کرنے میں جس ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ ہمیں ایک ایسے نقصان کی طرف دھکیل دے گا جس کا اِزالہ ممکن نہیں ہوگا۔ ہم نے اس وقت عملاً پورا ملک کھول دیا ہے۔ تمام کاروبار دھڑلے سے شروع ہو گئے ہیں۔ یوں کہیے ہم نے کرونا کو کہا ہے کہ تم نے جو کرنا ہے آؤ کرلو، ہم کسی بھی طرح کی عالمی وارننگ کو بھی خاطر میں نہیں لائیں گے۔ دیس پرائے سے پیغامات ملتے ہیں کہ خدارا، آپ احتیاط کیجیے۔ خدارا، اپنا اور اپنے خاندان کا خیال رکھیے کہ حالات بہت نازک ہیں۔ لیکن انہیں بھلا کوئی کیسے سمجھائے کہ جناب، ہمارے ہاں تو حکومتی سطح پر بھی شائد کرونا کو ایک مسخرہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جو عوام کے ساتھ بس مخول کر رہا ہے۔ خدارا، یاد رکھیے یہ کرونا نام کی وبا کوئی مسخرہ نہیں کہ کچھ دیر آپ کو ہنسائے گا، ڈرائے گا اور چلا جائے گا۔ یہ ایک عالمی وبا ہے اور ہمیں اس کو وہی مقام دینا ہو گا جو وقت کا تقاضا ہے۔
…………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔