شروع شروع میں پورے پاکستان کی طرح ضلع ملاکنڈ میں کرونا وائرس کے اثرات بہت کم نظر آرہے تھے، لیکن اب وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ حالات ختم نہ ہونے والے خطرات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کل تک ملاکنڈ میں 693 ایسے خواتین و حضرات تھے جن پر مختلف وجوہات کی بنا پر شک کیا جاتا تھا کہ ان کے اجسام میں کویڈ نائن ٹین کا وائرس موجود ہے جس میں 169 کے ٹیسٹ پازیٹو اور 504 کے نیگیٹو آچکے ہیں اور ا ب تک تین اموات واقع ہو چکی ہیں۔
مارچ کے مہینے تک ضلع ملاکنڈ میں کویڈ نائن ٹین کے اثرات نہ ہونے کے برابر تھے، لیکن گذشتہ دوہفتوں میں اس وائرس سے متاثرشدہ افراد کی تعداد میں غیر متوقع اضافہ دیکھنے میں آیاہے ۔ وائرس کے پھیلاؤ میں اس غیر متوقع شدت نے ملاکنڈ کے عوام، محکمۂ صحت کے اہلکاروں اور ملاکنڈ کی انتظامیہ اور دوسرے سٹیک ہولڈرز کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
مسائل اور ایشوز کی صحیح نشان دہی میڈیا کا کام ہے ۔ ملاکنڈ کے میڈیا نے اپنے اس فرض کواحسن طریقے سے ادا کیا ہے۔ جس پھرتی اور شوق سے ڈاکٹر سعیدالرحمان کی بریفنگ کو لوگوں تک پہنچانے کا انتظام کیا گیا، یہ جہاد سے کم نہیں۔ اور جب صحافیوں نے محسوس کیا کہ حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، تو ملاکنڈ کے تمام صحافیوں احسان ساگر، گوہر علی گوہر، عثمان یوسف زئی، محمد رسول رسا، اقبال اور ربنواز ساغر صاحب نے ریڈ الرٹ کے پیغامات جاری کرنے شروع کیے، اور اس طرح ایک ذمہ دار میڈیا کا کردار ادا کرتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنی سرگرمیوں پر مثبت انداز میں نظرِثانی کرنے کی اپیل کی۔
اس کے بعد انتظامیہ نے لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات کرنے شروع کیے۔ ڈپٹی کمشنر ملاکنڈ، اسسٹنٹ کمشنر اور لیوی اہلکار اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مزید متحرک ہوگئے۔ کئی لیوی اہلکاروں کا اس وائرس سے متاثر ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ انتظامیہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر لوگوں کی جان بچا رہی ہے۔
محکمۂ صحت ملاکنڈ ویسے ہی ڈاکٹر سعیدالرحمان اور ڈاکٹر وحید گل کی قیادت میں اس وبا کو کنٹرول کرنے میں فعال اور بنیادی کردارادا کر رہی تھی، لیکن وبا میں شدت کا احساس کرتے ہوئے محکمے نے اپنی کوششیں اورتیز کردیں۔ ایم ایس ڈاکٹر سعید الرحمان نے ہفتہ وار بنیاد پر پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ملاکنڈ کے عوام کو وبا کی تازہ ترین صورتحال سے باخبر رکھنے کے لیے بریفنگ دینا باقاعدگی سے شروع کیا ، جس میں وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری ادا کرتے ہوئے لوگوں کو احتیاط برتنے کی انتہائی مخلصانہ اور پرزور اپیل کرتے رہے۔اس کے علاوہ محکمہ صحت ملاکنڈ کے اہلکار اتنی لگن اور جواں مردی سے اس وبا کے خلاف لڑ رہے ہیں کہ ان کے کئی ڈاکٹر،ٹیکنیشن اور ڈسپنسر اس خوفناک وائرس کے حملہ سے متاثر ہوئے ہیں۔
سول سوسائٹی نے بھی پہلے سے زیادہ احتیاط برتنا شروع کیا ہے۔ شادی بیاہ اور دوسری سماجی رسومات یا تو منسوخ کی گئی ہیں، اور یا اتنی سادگی سے انہیں منانا شروع کیا گیا ہے کہ ان میں زیادہ ملنے جلنے کا امکان نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ عام لوگ جنازوں میں غیرمعمولی احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کویڈ نائن ٹین نے ملاکنڈ کے ہمدردانہ ذہنیت کے حامل عوام میں اشتراکیت اور دوسروں کے احساس کرنے کے جذبے کومہمیزکردیا ہے، اور یہاں کی رضاکار اور سماجی تنظیموں نے جس اخلاص اور ثابت قدمی سے لوگوں کی خدمت کی اور کر رہے ہیں، اس کی مثال ہمیں ماضی میں کہیں بھی نہیں ملتی۔ اس میں سول ڈیفنس ملاکنڈ، الخدمت فاؤنڈیشن، آغاز ویلفیئر آرگنائزیشن، خیر خیگڑہ ٹرسٹ مٹکنئی، سوشل انیشٹیوفورم طوطہ کان کی خدمات قابلِ ستائش ہیں۔ اس کے علاوہ بہت زیادہ لوگ اپنی ذاتی حیثیت میں نادار لوگوں کی امداد کررہے ہیں، جس میں اشفاق اور انجینئر باسط خان آف طوطہ کان قابل ذکر ہیں۔
شعرا اور فنکار ہر مصیبت کی گھڑی میں اپنی قوم کے لیے گیتوں،نظموں اور دوسرے مضامین کے ذریعے صحیح راستے کا تعین کرتے ہیں۔ ملاکنڈ کے شعرا مثلاً رحمت شاہ سائلؔ، امیر رزاق امیرؔ، علی اکبر سیالؔ اور دوست محمد طالبؔ نے کمال کی نظمیں لکھیں۔ ملاکنڈ کے نامور فنکار اسلم سالک، اخترشاہ اور لعل بادشاہ نے اپنی خوبصورت آوازوں کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کے لیے گیت ریکارڈ کیے۔
ہر مشکل وقت میں سیاسی لیڈرشپ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور لوگوں کو صحیح راستے پر ڈالنے میں ان کی رہنمائی کرتے ہیں، لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں کے رہنماؤں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگوں نے منتخب نمائندوں پر طنزیہ جملے کس دیے۔ مثلاً ’’ایم پی اے اور ایم این اے اپنے گھر کا پتا دیں، تاکہ ان کے گھروں میں راشن بھیج دیا جائے!‘‘ اور بعض نے تو ان کی گمشدگی کے اعلانات فیس بک پر شیئر کیے ۔ البتہ مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر سجاد احمدنے اپنی پارٹی کی طرف سے ملاکنڈ کے ڈاکٹروں کے لیے سیفٹی کٹس دے کر اپنا فرض پورا کرنے کی کوشش کی ہے، جو قابلِ تعریف اقدام ہے ۔
اگر ایک طرف تمام بین الاقوامی اور ملکی ادارے،سائنس دان اور ڈاکٹرز صاحبان اس وبا کے متعلق جس انداز سے معلومات اور اعداد و شمار فراہم کرنے میں مصروف ہیں، تودوسری طرف بعض انتہائی ذمہ دار اشخاص اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ کے این ایچ ایس میں کام کرنے والے ایک سینئر ڈاکٹر محمد اقبال عادل کا یہ بیان کہ کویڈ نائن ٹین کے اعداد شمار کا ڈبلیو ایچ او کے 13 مارچ کے امدادی اعلان کے بعد ڈرامائی اندز میں بڑھنے نے اس وبا کی حقیقت پر سوالات کھڑی کیے ہیں۔ اس طرح ڈاکٹر ’’تاسوکو ہونجو‘‘ جس نے وائرس کی تحقیق پر نوبل پرائز حاصل کیا ہے، اور جس نے ووہان کی لیبارٹری میں چار سال تک کام کیا ہے، ان کا یہ کہنا کہ یہ وائرس نیچرل نہیں ہے اور لیبارٹری میں تیار کردہ ہے۔ اس طرح ہمارے محترم ڈاکٹر سعیدالرحمان کا گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر یہ انفارمیشن شیئر کرنا کہ یہ امریکہ،چائینہ اور روس کا پاؤرگیم ہے، نے لوگوں کے شکوک و شبہات بڑھا دیے ہیں۔
ملاکنڈ میں وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ شماریات اور ریاضی کے اصولوں کے مطابق ضلع ملاکنڈ کی 720295 کی آبادی میں درجِ بالا اعداد و شمار کی بنیاد پر 175656 پازیٹو کیسوں کا احتمال ہے، لیکن ملاکنڈ کے عوام اور اداروں میں حالات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور جس محنت اور سنجیدگی سے وہ حالات کو مینج کررہے ہیں، لہٰذا ہم امید کرتے ہیں کہ بہت جلد ملاکنڈ میں پہلے کی طرح زندگی بحال ہوجائے گی۔ ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ اشتراکیت اور ہمدردی کے اس جذبے کو جاری رکھتے ہوئے دوسرے سماجی مسائل مثلاً غربت، بھوک، منشیات کے استعمال، بے روزگاری اور صنفی امتیاز کے خلاف مشترکہ جدوجہد کریں گے۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔