ہم بچپن سے ایک ہی جملہ سنتے آئے ہیں کہ "علم ایک دریا ہے اور اس کی کوئی حد معلوم نہیں۔”
انسان دن بہ دن ترقی کرتا جا رہا ہے۔ روز نت نئی ایجادات سامنے آ رہی ہیں۔ جہاں ایک طرف سائنس میں نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں جو سائنسی آلات بن رہے ہیں اس سے انسانی زندگی میں بے پناہ انقلاب برپا ہو رہا ہے، مگر وہاں دوسری طرف مشکلات بھی سر اٹھا رہی ہیں۔
آج اکیسویں صدی میں پہنچ کر یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ جس طرح علم ایک دریا ہے اور اس کی کوئی حد معلوم نہیں، ٹھیک اُسی طرح جہالت کی بھی اپنی ایک دنیا قائم ہے اور اس کی حد بھی معلوم نہیں۔
سائنس اور مذہب کے درمیان صدیوں سے چلتی آئی داستان تو یقیناً سب کو معلوم ہوگی، لہٰذا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ گلیلیو کے نظریے سے لے کر انسان کے چاند تک پہنچنے سمیت آج تک کے کم و بیش تمام بڑے سائنسی کرشمات کو جن لوگوں نے مسترد کیا ہے، اکثریت کا تعلق اسی طبقے سے ہے۔ یہ بات بھی حیران کُن ہے کہ ایسے افراد کا تعلق کسی ایک مذہب اور خطے سے نہیں۔ سائنس کے مخالف ہر دور میں ہر مذہب اور ہر خطے میں موجود رہے ہیں۔
قارئین، موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چلیے، کورونا وائرس کی مثال لے لیتے ہیں۔ کورونا بحران کو لے کر مذہبی طبقات (وہ لوگ جو مذہب کے نام پر اپنی محفلیں آباد رکھنا چاہتے ہیں اور جنہوں نے ہمیشہ مذہب کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے) ایک بار پھر میدان میں سرگرم ہیں۔ ایک طرف سائنس دان، لوگوں کو منع کر رہے ہیں کہ وہ باہمی میل جول سے گریز کریں، آپس میں "سوشل ڈسٹینس” یعنی سماجی فاصلہ رکھنے کی ترغیب دے رہے ہیں، تاکہ یہ وبا زیادہ نہ پھیلے اور کم سے کم جانی نقصان ہو۔ لیکن اس کے برعکس کچھ نام نہاد مذہبی افراد کورونا سے نمٹنے کے لیے مذہبی اجتماعات منعقد کرکے اس وبا کو تیزی سے پھیلانے میں پیش پیش ہیں، یعنی اکیسویں صدی میں ایک بار پھر جہالت ہمیشہ کی طرح اپنے عروج پر ہے۔ اور تکلیف سے کہنا پڑے گا کہ اس میں ہم پشتون کچھ زیادہ ہی نمایاں ہیں۔
قارئین، یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مذکورہ جہالت نمایاں ہے۔ یہ مخصوص طبقہ پہلے تو کورونا وائرس کے وجود ہی سے انکاری تھا، لیکن بعد میں جب رفتہ رفتہ اس کے مریضوں میں اضافہ ہوتا دیکھا گیا، تو اس معاملے کو بھی دین سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ پہلے بتایا گیا کہ "یہ تو خدا کی طرف سے عذاب ہے اور انسان اس کے آگے بے بس ہے۔” اس موقع پر ہر طرف جذباتی جملے سننے کو ملے، لیکن جب تبلیغی مراکز میں 27 تبلیغی حضرات میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی، تو بلآخر اس کو وبا تسلیم کر ہی لیا گیا۔ خیر، دیر آید درست آید!
اس کے علاوہ ہمارے ہاں کچھ جذباتی دوست حضرات بھی ہیں، جو کورونا وائرس کے وجود سے تو انکاری نہیں ہیں، لیکن مذکورہ مذہبی ٹھیکے داروں کی محفل میں رہ کر وہ بھی اب کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایک ہی جملے کی گردان کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ "زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔”
بھئی، اس بات سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان دوستوں سے میرا سوال یہ ہے کہ جب زلزلہ آتا ہے، تو آپ باہر کھلی میدان کی طرف کیوں دوڑتے ہیں؟ موت تو باہر بھی آسکتی ہے۔ کسی بھی قدرتی آفت کے وقت خود کو محفوظ مقام پر کیوں منتقل کرتے ہیں؟ یہ وہ اشارے ہیں جن کے لیے خدا نے ہمیں عقل عطا کی ہے، اور ایسے حالات میں اسی عقل ہی سے کام لینا پڑتا ہے۔ اور اس لیے ہم اشرف المخلوقات گردانے گئے ہیں۔
خیر، چھوڑیں! مَیں بھی کن لوگوں سے مخاطب ہوں! جو لوگ آج تک ایک دوسرے کے ساتھ کسی بھی ایک دینی مسئلے پر متفق نہیں ہوئے، اور معمولی معمولی مسئلے پر ایک دوسرے کے خلاف فتوے گھڑنا شروع کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایک نیا فرقہ سامنے آتا ہے، وہ میری بات کو کیا وقعت دیں گے؟
قارئین، اب جاتے جاتے جو بات میرے ذہن میں انگڑائیاں لے رہی ہے، وہ یہ ہے کہ سائنس دانوں کو چاہیے کہ وہ کورونا وائرس سے پہلے جہالت کی دوا (ویکسین) تیار کریں، جو کورونا وائرس اور انسانی صحت کے بیچ ایک بڑی رکاؤٹ ہے۔ اگر جہالت ختم کرنے کی دوا تیار کرلی گئی، تو مَیں وثوق سے کہتا ہوں کہ باقی کا کام خود بخود ہوجائے گا۔
بقولِ شاعر:
مانیں، نہ مانیں، آپ کو یہ اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔