محترم ڈی آئی جی ملاکنڈ ڈویژن محمد اعجاز خان، امید ہے آپ بخیر و عافیت ہوں گے۔
جنابِ والا! راقم چوں کہ بدقسمتی سے ’’سرٹیفائڈ ‘‘ صحافی ہے اور نہ کسی کا منظورِ نظر، اس لیے آپ صاحبان تک رسائی اس کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ شائد اس وجہ سے ’’ملا کی دوڑ مسجد تک‘‘ کے مصداق آپ صاحبان تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے اخبار کے صفحات کا سہارا لینا پڑرہا ہے۔
جنابِ والا! اس تحریر کی مدد سے ایک مظلوم کی داد رسی مقصود ہے، جس کی خاطر آپ صاحبان کا دروازہ کھٹکھٹانے جا رہا ہوں۔ پہیلیاں بھجوانے سے بہتر ہے کہ اصل مقصد کی طرف آؤں۔ سرِ دست روزنامہ مشرق کی دو خبریں ملاحظہ ہوں، اُس کے بعد اصل مدعا بیان کیا جائے گا۔
٭ پہلی خبر (4 اپریل، 2020ء) ’’پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہاتھا پائی، پولیس کے کپڑے پھاڑنے اور دفعہ 144کی خلاف ورزی پر پولیس نے چیئرمین ڈےڈک اور ایم پی اے فضل حکیم کے بھتیجے اور اس کے ساتھی کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کردیا۔ چیئرمین ڈےڈک کے بھتیجے اور انجمنِ قصابان سوات کے صدر حاجی خان طوطی کے بیٹے عبدالعزیز اور ان کے ساتھی وقاص نے مکان باغ میں پولیس ناکے پر روکنے پر پولیس اہلکار لائق زادہ پر حملہ کیا، گالی گلوچ کی اور پولیس کی وردی پھاڑ دی، جس پر پولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کردیا۔ ان کے خلاف دفعہ 506, 500, 186, 189, 188, 353 کے تحت ایف آئی آر درج کی۔‘‘
٭ دوسری خبر (5 اپریل، 2020ء) ’’سوات میں پولیس نے ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کے مصداق اپنے پیٹی بند کوسزا دے دی۔ چیئرمین ڈےڈک کے بھتیجے اور اس کے ساتھی نے جس پولیس اہلکار کو مارا تھا، پولیس نے اُسی سپاہی کومعطل کرکے کواٹر گارڈ (پولیس کی جیل) میں بند کردیا۔ ہفتہ کو لاک ڈاؤن کے دوران ایم پی اے کے بھتیجے عبد العزیز المعروف گران باچا اور ساتھی وقاص نے پولیس کے مطابق ایک پولیس اہلکار لائق زادہ پر تشدد کیا تھا۔ اس کی سرکاری وردی بھی پھاڑ دی تھی، جس کے بعد پولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف دفعہ 506, 500, 186, 189, 188, 353 کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔ پولیس نے دونوں ملزمان کو گذشتہ رات گھر بھیج دیا جن کو ابھی تک عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔ ڈی پی او نے متاثرہ سپاہی کو معطل کرکے کواٹر گارڈ میں بند کردیا۔ اس سلسلے میں ڈی پی اُو سوات قاسم علی خان سے رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے کہا کہ گذشتہ رات ان کو تھانہ مینگورہ سے غلط اطلاع دی گئی تھی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ثابت ہوا ہے کہ پولیس نے ایم پی اے کے بھتیجے اور ساتھی پر تشدد کیا تھا جس کی وجہ سے میں نے پولیس اہلکار کو کواٹر گارڈ بھیج دیا ہے۔ دونوں ملزمان کی ایف آئی آر سے تمام دفعات حذف کرکے صرف دفعہ144 لگائی جائے گی۔‘‘
جنابِ والا! حضرتِ ’’ڈی پی اُو‘‘ صاحب کو جو سی سی ٹی وی فوٹیج ملی ہے، اس میں پولیس اہلکار کو ہاتھا پائی میں پہل کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ پولیس کو ہر گز یہ حق نہیں کہ وہ کسی عام شہری پر ہاتھ اٹھائے، مگر کیا حضرتِ ڈی پی اُو صاحب نے یہ زحمت گوارا کی ہے کہ پولیس اہلکار اس عمل پر کیوں مجبور ہوا؟
جنابِ والا! مذکورہ واقعہ ہمارے دفتر واقع مکان باغ چوک کے عین سامنے رونما ہوا۔ اس واقعہ کے تین چشم دید گواہ حضرت علی، نواز ظفر اور احسان موجود ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق ناکے پر موجود دیگر پولیس اہلکاروں کے ساتھ مذکورہ اہلکار (لائق زادہ) نے جیسے ہی دفعہ 144 کی کھلی خلاف ورزی کرنے والے عبدالعزیز المعروف گران باچا اور وقاص کو رُکنے کا اشارہ کیا، تو رُکنے سے پہلے گران باچا نے پولیس اہلکار کو گالی دی۔
جنابِ والا! تینوں گواہ آپ کے حضور حاضر ہوکر تحریری بیان دینے کو تیار ہیں کہ وہ گالی کس نوعیت کی تھی؟ اُس پولیس اہلکار کی تعلیمی قابلیت کیا ہوگی؟ اُس کی جگہ جب مَیں خود کو رکھتا ہوں، مَیں ایک ماسٹر ڈگری ہولڈر، معلم، لکھاری اور ’’سرٹیفائڈ‘‘ نہ سہی مگر صحافت سے کوئی دس بارہ سال کی وابستگی تو ہے، جب میرے جیسے انسان کا مذکورہ گالی سے خون کھول اٹھتا ہے، تو ایسے میں ایک پولیس اہلکار جو صبح سے ناکے پر کھڑا دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی کرنے والے ایک سے بڑھ کر ایک نو دولتیے کے ناز نخرے اٹھا کر، اس سے بار بار نبٹ کر، تمام تر بے قاعدگیوں سے عاجز آگیا ہو، ایسے میں کوئی آکر اسے ماں بہن کی گالی دے، تو کیا وہ بدلے میں پھولوں کی پتیاں نچھاور کرے؟
جنابِ والا! یہ بالکل غلط ہے کہ عبد العزیز اور وقاص پر چھے مختلف دفعات لگائے گئے، مگر کیا یہ درست ہے کہ دونوں ملزمان کو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور چھے سات گھنٹے حراست میں رکھ کر انہیں پروٹوکول میں گھر واپس بھیج دیا گیا؟ دوسری طرف قانون نافذ کرنے والا ایک سپاہی پچھلے 48گھنٹوں سے کوارٹر گارڈ میں پڑا سڑ رہا ہے۔
جنابِ والا! فوٹیج تو ہمارے پاس بھی ہے جس میں وقاص کے والدِ بزرگوار، عبد العزیز المعروف گران باچا کو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ’’چپ رہو، قصور سارے کا سارا تمہارا ہے!‘‘
جنابِ والا! بخدا مَیں اُس پولیس کو نہیں جانتا۔ زندگی میں پہلی بار اس سے مل رہا ہوں۔ ہاں، ایم پی اے صاحب کو بخوبی جانتا ہوں۔ نظریاتی اختلاف اپنی جگہ، مگر وہ بھی ثابت نہیں کرسکتے کہ ان کے دورِ حکومت میں اپنے کسی ذاتی مفاد کی خاطر اس کا در کھٹکھٹایا ہو، یا اس کے لیے کبھی ذہنی خلجان کا باعث بنا ہوں۔ اس طرح خان طوطی حتی کہ وقاص اور اس کے والدِ بزرگوار تک سب کو جانتا ہوں، سب میرے لیے محترم ہیں مگر بقولِ جون ایلیاؔ
جو دیکھتا ہوں، وہی بولنے کا عادی ہوں
مَیں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
جنابِ والا! انکوائری کا حکم دیجیے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کے ساتھ ساتھ ان چشم دید گواہوں کو بھی سنیے۔ ہماری فوٹیج کے تناظر میں تھانے کے اندر ہونے والی گفتگو کو بھی ملاحظہ کیجیے۔ ہاں، اس سے میرا کوئی سروکار نہیں کہ تھانے کے اندر انہیں کیوں پروٹوکول دیا گیا؟ کیوں عبدالعزیز المعروف گران باچا شانِ بے نیازی سے صوفے پر بیٹھ کر تھانے کا تقدس پامال کرتا رہا۔ وہ قانون جانے اور محترم گران باچا۔
محترم ڈی آئی جی صاحب! میرے اس کھلے خط پر غور فرمائیں، آپ تک رسائی میرے لیے مشکل ہے۔ میرا کام ایک قانون نافذ کرنے والے مظلوم پولیس اہلکار کی آواز آپ تک پہنچانا ہے۔ اُس مظلوم پولیس اہلکار لائق زادہ کا ساتھ دینا مقصود ہے، اس کو کوارٹر گارڈ سے نکال کر باعزت طریقے سے واپس ناکے پر کھڑا کرانا مقصود ہے۔ اُس مظلوم کا گھر بار ہوگا، بیوی بچے ہوں گے۔ اس کی بھی گران باچا کی طرح عزتِ نفس ہے۔ بھلے ہی وہ مجھ سا تہی دست ہو، اس کے پاس دولت نہ ہو، اس کی طاقت نہ ہو، مگر وہ قانون کا رکھوالا ہے۔ اس نے دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی کرنے والوں کا راستہ روکا ہے، اس نے گالی سنی ہے، اس کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے۔
جنابِ والا! اگر لائق زادہ کو انصاف نہیں ملا، تو مجھ سے لکھ کے لے لیں، آپ کو ہر ناکے پر کسی نہ کسی نو دولتیے کے ہاتھوں ایسے ہی کسی بے چارے لائق زادہ کی وردی پھٹی ہوئی اور ٹوپی زمین پر پڑی ہوئی ملے گی۔ بااثر لوگوں سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں۔ بس اس مظلوم کو انصاف دلا دیجیے جو وردی کی حرمت اور قانون کی بالادستی کے جرم میں کوارٹر گارڈ میں پڑا سڑ رہا ہے۔یہ میری آپ صاحبان سے درخواست ہے۔
ایسی ہی ایک درخواست فضل حکیم صاحب سے بھی ہے۔ مَیں نہ سہی مگر میرے علاوہ اہلِ سوات نے اُن پر اعتماد کیا ہے۔ وہ بھی بڑے دل کا مظاہرہ کریں اور ایک قانون نافذ کرنے والے ادنیٰ سپاہی کا ساتھ دیں کہ اس وقت اس سے بڑا اور کوئی کام نہیں۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔