آج جہاں باقی ماندہ دنیا کے تہذیب یافتہ لوگ۔ ’’کرونا وائرس کووڈ 19‘‘ سے بچاؤ کے لیے حفاظتی تدابیر اور اس مرض کے علاج کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں، وہاں ہمارے معاشرے کے بعض غیر سنجیدہ طبقے اس وبا کو مذاق سمجھ کر مختلف قسم کے لطیفے اور کہانیاں بنا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض حلقے تو اس کا باقاعدہ طور پر مذاق بھی اُڑا رہے ہیں۔
تاریخ کی ورق گردانی سے پتا چلتا ہے کہ ایسی وباؤں کا پھیلنا کو ئی نئی بات نہیں، بلکہ زمانۂ قدیم سے اقوامِ عالم مختلف قسم کی وباؤں کا سامنا کرتی چلی آرہی ہیں۔ مَیں یہاں کسی وبا سے پھیلی ہوئی تباہی کا ذکر نہیں کرنا چاہتا، مگر وبا کے دنوں میں انسانی رویوں اور ردِ عمل پر ضرور بات کروں گا۔ کسی بھی وبا سے خوف ہی وہ پہلا رویہ ہے جو انسانی اور سماجی فطرت میں شامل ہے۔ اسی طرح وبا کے دنوں میں مختلف سازشی نظریے، شکوک و شبہات، الزامات، مزاحیہ کہانیاں، لطیفے، مذہبی اور سیاسی مفروضے پروان چڑھتے ہیں۔ چین کے شہر ووہان میں پیدا ہونے والے ’’کرونا وائرس کووڈ 19‘‘ نے اب تک 190 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ اب تک ساڑھے 4 لاکھ افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ آج تک تقریباً 19 ہزار اس کی وجہ سے لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ تاہم بدقسمتی سے ہمارے معاشرہ کے کچھ لوگ اس کے حفاظتی اقدامات کے خلاف بات کر رہے ہیں، اور کہتے سنے گئے ہیں کہ کوئی بیماری ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ کیوں کہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے اور موت کا ایک دن معین ہے۔ مذہبی طبقہ میں بھی بعض افراد مساجد اور خانہ کعبہ کے بند ہونے پر سراپا احتجاج ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ عمل شریعت کے منافی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ مساجد اور خانہ کعبہ کے بند کرنے کے حق میں ہیں، ان کا ایمان کمزور ہے۔
یہی نہیں ہمارے معاشرہ میں چند عناصر تو یہ تک کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی حکومت کرونا وائرس کی وبا سے بھرپورفائدہ اٹھائے گی، اور ڈالر بٹورنے کے لیے دنیا کی ترقی یافتہ ممالک کو غلط ڈیٹا فراہم کرے گی، جب کہ بعض کا کہنا ہے کہ ہسپتال نہ جائیں، کیوں کہ وہاں لوگوں کو زہر کا انجکشن لگایا جاتا ہے۔
ایک ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان ہے جہاں بعض ہندوؤں نے اس کے علاج کی خاطر گائے کا پیشاب مؤثر قرار دیا ہے بلکہ اس غرض سے محفلیں سجتی دکھائی دے رہی ہیں۔
اس طرح ہمارے ملک میں تاجر برادری اور دکان داروں کا اس قسم کے ماحول سے ناجائز فائدہ اٹھانا کوئی نئی بات نہیں۔ حسبِ معمول مختلف اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔ تاہم ہمارے معاشرہ کے بعض لوگوں نے ردِ عمل کے طور پر ازراہِ تفنن پشتو ادب کی صنف ’’ٹپہ‘‘ کو بھی پھرپور اس آفت میں استعمال کیا ہے۔ کسی نے ٹپہ کے ذریعے مذکورہ وائرس کو محبوبہ کی ملاقات میں رکاؤٹ کا سبب ٹھہرایا ہے، تو کسی نے اس سبب محبوبہ کو آنے جانے اور ملاقات سے منع کیا ہے۔ بعض نے کرونا کو بددعا دی ہے جب کہ بعض نے اپنے محبوب کو اس میں دعادی ہے۔ مَیں نے اس طرح کے چند ٹپے جمع کیے ہیں، ملاحظہ ہوں:
کرونا پہ تلو راتلو زیاتیگی
شیرینہ یارہ مہ رازہ، نہ بہ درزمہ
یعنی کرونا کا مرض آنے جانے سے بڑھتا ہے، پیارے محبوب، اس وقت ملنے جلنے سے اجتناب ہی بہتر ہے۔
دَ کرونا مرضہ ورک شے
پہ ما دی بند کڑل د سُرکو شونڈو سرونہ
یعنی کرونا کا مرض دفعہ ہو، تمہاری وجہ سے مجھ پر محبوب کا بوسہ لینا بند ہوگیا۔
کرونا راغلہ لاری دوہ شوے
جانانہ خپل غم دے کوہ خپل بہ کوومہ
کرونا آنے کی وجہ سے ہمارے راستے جدا ہوگئے۔ پیارے محبوب، تم اپنا راستہ ناپو، مَیں اپنا ناپتا ہوں۔
دیدن ئی داسے پہ ما بند کو
لکہ د کرونا نہ چی بند دی بازرونہ
مجھ پر میرے محبوب کا دیدار کچھ یوں بند ہوگیا جیسے کرونا کی وجہ سے تمام بازار بند ہیں۔
دہ کرونا وائرس نہ مڑ مہ شی
زما د زڑہ ستنی پہ تا ولاڑے دینہ
کہیں کرونا وائرس سے میرا محبوب مر نہ جائے۔ مَیں تو اس کی وجہ سے زندہ ہوں۔
جانان پہ کور کی قرنطین شو
دَ یری ڈز دے جوند بہ سنگہ تیروینہ
میرا محبوب گھر میں قرنطین ہوگیا، ڈرپوک ہے کہیں خوف ہی سے مر نہ جائے۔
جانان نہ پٹہ پٹہ گرزم
لہ چین راغلے رانہ غواڑی دیدنونہ
محبوب سے چوری چپکے پھرتی ہوں۔ چین سے آیا ہے اور دیدار کا طلب گار ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔