یورپ اور چین پر ہو کا عالم طاری ہے۔ کرونا وائرس نے ایک عالم کو ہیبت زدہ کردیا ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔ کرونا ایک وائرس نہیں بلکہ ایک ایسی وبا ہے جس کی معلوم انسانی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک جس نے یکساں خلقِ خدا کو خوف و ہراس کا شکار کیا۔ عام و خاص سب ہی اس کے خوف سے ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ امیر و غریب، ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کی تمیز مٹ گئی، یعنی کہ
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
ایسی کوئی وبا تاریخِ انسانیت میں رقم نہیں جس کے اثرات عالمگیر ہوں۔ ہر براعظم کے لوگوں کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہو۔ دنیا بھر کے ماہرینِ طب کہتے ہیں کہ کرونا کا کسی اور بیماری یا وبا سے تقابل نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالہ سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ گذشتہ برس امریکہ میں فلو سے 37,000 لوگ جاں بحق ہوئے لیکن کاروبارِ زندگی رُکا نہ گلی کوچے سنسان ہوئے، تو یہ سناٹا اب کی بار کیوں؟
صدر ٹرمپ کو باور کرایا گیا کہ فلو اور کرونا کا تقابل کرنا سادہ لوحی ہے۔ فلو سے صرف ایک فی صد لوگ زندگی سے محروم ہوتے ہیں۔ کرونا کا تو ابھی علاج ہی دریافت نہیں ہو پایا۔
قارئین، "Charles Ornstein” امریکہ کے ایک بہت بڑے لکھاری ہیں۔ انہوں نے انسانی تاریخ چھان ماری، تاکہ یہ تلاش کیا جاسکے کہ کرونا سے خطرناک کوئی وبا کبھی انسانی تاریخ میں پھوٹی ہے۔ یہ بیماری معمر افراد ہی نہیں بلکہ تنومند جوانوں کو بھی بری طرح گھائل کرتی ہے۔ یہ محقق کہتے ہیں کہ فلو سے زیادہ تر 60 اور 70 برس کے پیٹے کے لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔
کرونا سے ہر عمر کے لوگوں کی ہلاکت کی شرح 10 فی صد ہے۔ ترقی یافتہ ممالک پریشان ہیں کہ ابھی تک وہ اس وائرس کا علاج دریافت نہیں کرپائے۔ اگر یہ وبا بے قابو ہوتی ہے، تو مریضوں کے علاج کے لیے ضروری طبی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔ہسپتال میں ادویہ نہیں اور معالجین کی تربیت کا بھی فقدان ہے۔ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ طبی عملے کو اس وبائی بیماری سے کیسے بچایا جائے؟ کئی ممالک میں ڈاکٹر اور ان کے معاونین کرونا وائرس کا شکار ہوگئے ہیں۔ شہروں میں سرکاری نہ سہی نجی ہسپتالوں میں لوگ علاج کراسکتے ہیں، لیکن دیہادتوں میں خلقِ خدا کہاں جائیں؟ کوئی چارہ گر نہیں۔
70 برسوں سے وسائل بڑے شہروں کی تزئین و آرائش پر پھونکے گئے۔ دیہاتوں کی طرف کسی نے مُڑ کر بھی نہ دیکھا۔ جہاں 70 فی صد شہری آباد ہے۔ خاکم بدہن! اگر یہ وبا بے قابو ہوتی ہے، تو دیہاتوں کے دیہات لقمۂ اجل بن سکتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں آج بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ وبا پھوٹ پڑی، تو لوگ ایک دوسرے کو نوچنے پر تل جائیں گے۔ ڈاکٹروں کی ایک بھاری تعداد ہمدرد معالج کا کردار ادا کرنے اور مرض کی تشخیص کرنے پر وقت اور توانائی صرف کرنے کے بجائے اس کی مالی حیثیت کی جانچ پرکھ پر زیادہ دھیان دیتے ہیں۔
عملے کا رویہ عمومی طور پر غیر دوستانہ ہوتا ہے۔ پسے ہوئے طبقات کے علاوہ خال خال ہی لوگ سرکاری ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ کرونا وائرس نے پاکستان پر ابھی تک یلغار نہیں کی۔ موسم میں بھی مسلسل بہتری آ رہی ہے۔ موسمِ گرما اس مرتبہ ہمارے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہونے والا ہے۔ کرونا گرمی کی شدت کی تاب نہیں لا پاتا۔ یورپ والے جس گرمی کی شدت سے کوسوں دور بھاگتے تھے، وہ پاکستان جیسے ممالک کے شہریوں کے لیے تریاق ثابت ہوئی۔ شکر ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے پسے ہوئے طبقات کے لیے صحت انصاف کارڈ متعارف کرائے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ڈیڑھ کروڑ خاندانوں کی صحت کی انشورنس کی گئی۔ معذور افراد جنہیں اب خصوصی شہری کہا جاتا ہے، کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خصوصی اقدمات کیے گئے۔ ملک بھر کے 48 اضلاع، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور اسلام آباد کے غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے خاندان صحت سہولت پروگرام کے ذریعے علاج کرا سکتے ہیں۔ تھرپارکر جو گزشتہ برسوں زبردست قحط کا شکار ہے اور کنٹرول لائن پر بھارتی فائرنگ سے متاثرہ تمام خاندانوں کو صحت کارڈ دے دیا گیا ہے یا دیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان مسلسل ہسپتالوں کا دورہ کر تے ہیں۔ اعلیٰ سطحی سرکاری اجلاسوں میں وہ صحت کے شعبہ کی بہتری کے اقدامات پر حکام کو متوجہ کرتے ہیں جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ وزیرِاعظم نے کہا ہے کہ وہ کرونا وائرس کے حوالے سے حکومتی اقدمات کی خود نگرانی کریں گے، جو اچھی بات ہے لیکن یہ حقیقت پیشِ نظر رہے کہ صحت کا محکمہ اب مکمل طور پرصوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں ہے۔ ان ہی کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس شعبے پر توجہ دیں، اور خاص طور پر کرونا کی وبا کے مقابلے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کریں۔
پاکستان میں صحت کے مسائل پر آہ و زاری تو ایک جاری عمل ہے، لیکن کرونا وائرس کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جو ابھی تک زیادہ زیرِ بحث نہیں آیا۔ وہ ہے امریکہ اور چین کے درمیان جاری معاشی اور عسکری بالادستی کی جنگ۔ امریکہ چین کی معاشی میدان میں مسلسل پیش رفت سے خائف ہے، اور وہ اس کا اظہار بھی کرتا ہے۔ پاکستان کی طرح کے امریکہ کے کئی ایک روایتی حلیف اس کی بے رخیوں کے باعث چین کے دوست ہی نہیں بلکہ اسٹرٹیجک شراکت دار بن چکے ہیں۔ یہ شراکت داری عسکری میدان تک محدود نہیں رہی بلکہ چین پاکستان کے لگ بھگ تمام بڑے ترقیاتی منصوبوں کا معمار ہے۔
افریقہ، عرب ممالک اور یورپ میں بھی چین کی کمپنیاں بڑے بڑے کاروبار کنٹرول کرتی ہیں۔ اب وہ کئی ایک اسٹرٹیجک اہمیت کے اداروں میں بھی شراکت داری حاصل کرنے کے لیے بے دریغ سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ چین دنیا میں ضرورت مند ممالک کو سب سے زیادہ قرض فراہم کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ چینی حکام بھی امریکہ سے بہت خوف زدہ ہیں۔ کچھ بااثر چین کے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ ان کی ترقی کا پہیہ روکنے اور انہیں ناکام کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ چند دن قبل پاکستان ائیرفورس کے ایک ادارے نے اسلام آباد میں سیمینار منعقد کرایا۔ اس موقع پر پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر کیمرون منٹر نے کہا کہ امریکہ ٹیکنالوجی میں دنیا سے عشروں آگے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ٹینک، فضائی مستقر اور بحری بیڑے جو آپ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، یہ امریکی ٹیکنالوجی کے سامنے کوڑے کا ڈھیر ہیں۔
چین کے بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ چین کے خلاف "حیاتیاتی جنگ” چھیڑ چکا ہے اور کرونا وائرس اس کشمکش کا ایک شاخسانہ ہے۔ اس وائرس نے چین کی حکومت اور ریاست کو چند ہفتوں میں بغیر کسی جنگ و جدل کے تہ و بالا کر دیا۔ اس الزام کی حقیقت ابھی ثابت ہونا باقی ہے، لیکن یہ اس خوف اور بدگمانی کی ضرور عکاسی کرتا ہے جو دنیا کے ان دو بڑے ممالک کے درمیان پائی جاتی ہے۔
حرفِ آخر! روایتی جنگوں کا عہد تمام ہوچکا۔ قوموں یا ممالک کے درمیان مقابلے اور مسابقت کا میدانِ علم اور جدید علوم پر مہارت اور ان کا استعمال ہے۔ اب جنگوں میں حیاتیاتی ہتھیار استعمال ہوں گے جن کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر عبور درکار ہے۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔