امریکا میں سازشی نظریات کا پرچار کرنے والے مصنف ’’ڈیوڈ میڈ‘‘ نے سورج گرہن کے بعد پیش آنے والے واقعات کا ذمہ دار موت کے سیارے کو قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ تیئس ستمبر 2017ء کو دنیا تباہ ہو جائے گی۔ کیونکہ موت کا سیارہ زمین سے ٹکرا جائے گا۔
اگرچہ ڈیوڈ میڈ کی پیش کردہ تھیوری سے کسی سائنس دان نے اتفاق نہیں کیا، لیکن ان کی پیش کردہ رپورٹ کی وجہ سے کئی لوگ حیران و پریشان نظر آتے ہیں۔ اس طرح کی پیش گوئیاں جو دراصل مسلمانوں کے نزدیک بونگیوں میں شمار ہوتی ہیں، مغربی دنیا کی جانب سے کئی بار پہلے بھی ہو چکی ہیں، مگر قیامت پھر بھی نہ آئی۔ ماضی میں اس طرح کی بہت ساری پیشگوئیاں غلط ثابت ہو چکی ہیں۔ قبل ازیں ماہرین فلکیات نے پیشگوئی کی تھی کہ پندرہ اپریل 2015ء سے آسمان پر حیرت انگیز طور پر مون ایپوکلپسی کا آغاز ہونے والا ہے، جس میں کرۂ ارض، سورج اور مریخ ایک ہی لائن میں آ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں خون رنگ چاند نمودار ہوتا ہے۔ اس پر عیسائی برادری کا ماننا تھا کہ یہ قیامت کا آغاز اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی علامت ہے۔

مصنف ’’ڈیوڈ میڈ‘‘ نے سورج گرہن کے بعد پیش آنے والے واقعات کا ذمہ دار موت کے سیارے کو قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ تیئس ستمبر 2017ء کو دنیا تباہ ہو جائے گی۔

مصنف ’’ڈیوڈ میڈ‘‘ نے سورج گرہن کے بعد پیش آنے والے واقعات کا ذمہ دار موت کے سیارے کو قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ تیئس ستمبر 2017ء کو دنیا تباہ ہو جائے گی۔

عیسائی مذہب کے ماننے والوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ انجیل میں اس بات کی پیشگوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دنیا میں دوبارہ آمد اور قیامت سے پہلے سورج تاریکی میں ڈوب جائیگا اور چاند مکمل سرخ ہو جائیگا۔ دو سال پہلے پندرہ اپریل تو گزر گئی، مگر قیامت نہ آئی۔ جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے، اس کے ساتھ ہی مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی طرف سے قیامت کی کئی بار جھوٹی پیشگوئیاں بھی ہو چکی ہیں۔ ایک قدیم تہذیب مایا کے ماننے والوں نے اکیس دسمبر 2012ء کو بھی قیامت کا دن قرار دیا تھا۔ مایا کلینڈ کے مطابق اکیس دسمبر 2012ء کو پانچ ہزار ایک سو چھبیس برس پر مشتمل ایک دور کا خاتمہ ہونا تھا، لہٰذا اس دن ایک بڑی قدرتی آفت کے ذریعے قیامت برپا ہونا تھی، مگر قیامت کے بارے میں اسلام کے نظریہ کے مقابلہ میں یہ عقیدہ بھی فیل ہوگیا۔ اپنی ناکامی کے بعد منھ چھپانے کے بجائے اس عقیدہ کے ماننے والوں نے قیامت کی ایک نئی تاریخ دی اور اس تہذیب کے پیروکار کا کہنا تھا کہ مایا کلینڈر کا عیسوی کلینڈر سے غلط موازنہ کیا گیا اور اکیس دسمبر 2012ء کو قیامت نہ آنے کی وجہ حساب کتاب کی غلطی تھی۔ صحیح حساب کے مطابق قیامت یکم جنوری 2017ء کو آئے گی۔ تاہم رواں سال کا یکم جنوری بھی خیریت سے گزر گیا اور قیامت کا دور دور تک پتا نہ چلا۔ اس سے قبل ایک عیسائی مبلغ ہیرالڈ کیمپنگ بھی یہ پیش گوئی کر چکا ہے کہ اکیس اکتوبر 2011ء کو دنیا ختم ہو جائے گی۔ اس عیسائی مبلغ نے پہلے اکیس مئی کو قیامت آنے کی پیش گوئی کی تھی، مگر جب مئی کا یہ دن خیریت سے گزر گیا، تو پھر اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان سے جمع تفریق میں تھوڑی بہت گڑ بڑ ہو گئی ہے، جسے اب ٹھیک کر لیا گیا ہے۔ لہٰذا اب اکیس اکتوبر 2011ء کو قیامت آئے گی، مگر یہ پیش گوئی بھی غلط ثابت ہوئی۔ ماضی میں مغربی دنیا میں کئی لوگ قیامت کی ناکام پیش گوئیاں کرچکے ہیں۔ حتیٰ کہ متعدد سائنس دان بھی مختلف موقعوں پر خلا میں بھٹکتے ہوئے کئی بڑے اجرام فلکی کے زمین سے ٹکرانے کے نتیجے میں قیامت برپا ہونے کی پیش گوئیاں کر چکے ہیں، مگر ہر بار کرۂ ارض ایسے کسی ممکنہ حادثے سے بچتا رہا ہے۔ امریکا میں سازشی نظریات کا پرچار کرنے والے مصنف کی موجودہ پیشگوئی کے بعد سے دنیا کے خاتمے بارے قیاس آرائیاں مغربی دنیا میں ایک بار پھر شروع ہو چکی ہیں۔ موجودہ پیش گوئی کس حد تک سچ ثابت ہوتی ہے، یہ تو تیئس ستمبر کو ہی پتا چلے گا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ گذشتہ پانچ سو سال میں مون ایپوکلپس تین بار وقوع پذیر ہوا ہے لیکن جب بھی نمودار ہوا دنیا میں مذہبی حوالے سے ڈرامائی تبدیلیاں ضرور دیکھی گئیں۔ پہلی بار جب 1949ء میں بلڈ مون آسمان پر اُبھرا، تو کیتھولک عیسائیوں کے ہاتھوں یہودیوں کو بڑے پیمانے پر دیس سے نکالا گیا۔ 1949ء میں خون رنگ چاند سامنے آیا، تو ہزاروں سال کی حدود کے بعد یہودیوں کیلئے اسرائیل وجود میں آ چکا تھا۔ یہ واقعہ 1967ء میں بھی پیش آیا، جب عرب اسرائیل جنگ زوروں پر تھی۔

 ایک قدیم تہذیب مایا کے ماننے والوں نے اکیس دسمبر 2012ء کو بھی قیامت کا دن قرار دیا تھا۔ مایا کلینڈ کے مطابق اکیس دسمبر 2012ء کو پانچ ہزار ایک سو چھبیس برس پر مشتمل ایک دور کا خاتمہ ہونا تھا، لہٰذا اس دن ایک بڑی قدرتی آفت کے ذریعے قیامت برپا ہونا تھی، مگر قیامت کے بارے میں اسلام کے نظریہ کے مقابلہ میں یہ عقیدہ بھی فیل ہوگیا۔

ایک قدیم تہذیب مایا کے ماننے والوں نے اکیس دسمبر 2012ء کو بھی قیامت کا دن قرار دیا تھا۔ مایا کلینڈ کے مطابق اکیس دسمبر 2012ء کو پانچ ہزار ایک سو چھبیس برس پر مشتمل ایک دور کا خاتمہ ہونا تھا، لہٰذا اس دن ایک بڑی قدرتی آفت کے ذریعے قیامت برپا ہونا تھی، مگر قیامت کے بارے میں اسلام کے نظریہ کے مقابلہ میں یہ عقیدہ بھی فیل ہوگیا۔

جہاں تک قیامت برپا ہونے کی پیش گوئی کا تعلق ہے، تو اس دنیا کی مثال ہماری زندگی کی طرح ہے۔ انسانی زندگی کی طرح دنیا بھی آہستہ آہستہ خاتمے کی طرف جا رہی ہے۔ قیامت کے بارے میں اسلامی عقیدہ دیگر تمام مذاہب کے نظریات کی نفی کرتا ہے۔ اسلام کے عقیدہ کے مطابق دنیا کے خاتمے کا علم اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے۔ البتہ قیامت سے قبل اس کی چند علامات ضرور ظہور پذیر ہوں گی۔ ان علامات میں سیدنا امام مہدی کا ظہور، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا اور زمین سے ایک جانور کا نکلنا جو بات کرے گا، یاجوج ماجوج کا ظہور اور اللہ کے غضب سے ان کی ہلاکت، سورج کا مغرب سے نکلنا اور آگ کا ظاہر ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ کائنات کے اختتام کے حوالے سے اسلامی عقیدہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ البتہ اسلام نے اس سلسلے میں صدیوں پہلے جو نظریہ دیا، آج سائنس کے بیان کردہ اندازے اس کے قریب تر ہیں۔