ایک پاکستانی برطانیہ کے پارک میں بیٹھا تھا۔ چوں کہ چھٹی کا دن تھا اور سورج آب و تاب سے چمک رہا تھا، اور انگلش بچے بے خوف و خطر ادھر اُدھر دوڑ رہے تھے، نہ ان کو اپنی جان کی پرواتھی۔ نہ زخمی ہونے کا ڈر۔ پاکستانی بڑے غور سے یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔ اس منظر کو دیکھتے دیکھتے اس کے منھ سے ایک معنی خیز اور پاکستانی نیشنلزم کے جذبے سے بھرا ہوا فقرہ نکل گیا کہ ’’مَیں بھی چاہتا ہوں کہ پاکستان کا ہر بچہ انگریز کے بچے کی طرح بے خوف و خطر کھیلے کھودے۔ اُس کو ایسا تعلیمی ماحول مہیا کیا جائے، جس میں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرے۔‘‘
یہ وادئی مہران کا جناب ذوالفقار علی بھٹو تھا، جو بعد میں پاکستان کا وزیراعظم بنا۔ اپنی اس فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے اس نے پاکستان میں ایک لبرل اور مساوات پر مبنی سماج کے لیے انقلابی اقدامات کیے۔ مذکورہ بالا اپنے اولین مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ’’تیسری دنیا‘‘ کی اصطلاح تخلیق کی اور تمام عالمِ اسلام کو اکٹھا کرکے ایک نئی عالمی طاقت کی بنیاد رکھی، تاکہ وہ اپنے جغرافیائی، معاشی، مذہبی اورسماجی حالات کی بنیاد پر اپنے ممالک کا معاشی ایجنڈا استوار کریں، اور کسی سے ڈکٹیشن نہ لیں۔ پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے اور دنیا میں اس کا ایک منفرد تشخص قائم کرنے کے لیے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ابتدا کی۔
جس طرح گاؤں کا خان ایک غریب آدمی کے بچے کی مثبت اور مترقی فکر کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اسی طرح دنیا کی عالمی طاقتیں غریب اور ترقی پذیر ممالک کے رہنماؤں کی اپنے ملک اور قوم سے متعلق اچھی اور مثبت فکر کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہیں۔ بھٹو کی انقلابی اصلاحات، مترقی سوچ، پاکستان کا ایٹمی پروگرام، پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کو ایک الگ حیثیت دینے کا نظریہ عالمی طاقتوں، خاص کر امریکہ کو اچھا نہیں لگا۔ واشنگٹن ڈی سی سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ’’لینلے ورجینا‘‘ کی ایک عمارت میں سی آئی اے کا ہیڈ کوارٹر ہے، جس کا کام تمام دنیا میں امریکہ کی بالادستی قائم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا اور اس پر عمل درآمد کرنا ہے۔ 70 کی دہائی کے آخر میں اس عمارت میں’ ’فِنش بھٹو‘‘ کے نا م سے پراجیکٹ بنا۔ اس کے لیے پاکستان کے ایک اہم ادارے سے پراجیکٹ ڈائریکٹر کو چنا گیا۔ پھر پاکستانی عوام کو اس پراجیکٹ کا ہم نوا بنانے کے لیے ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی شکل میں بھرتیاں کی گئیں۔ امریکہ نے خوب ڈالرز برسائے۔ پاکستان میں اتنے زیادہ ڈالرز آئے کہ لوگ ان کو خریدنے کے لیے پاکستان کا رُخ کیا کرتے۔ 5 جولائی 1977ء کو پاکستانی فوج کے چیف آف اسٹاف نے ’’مارشل لا‘‘ لگاکر پراجیکٹ پر عملی کام کا آغاز کیا۔ پھر ایک جھوٹے مقدمے میں بھٹو کو پھانسی دے کر ’’پراجیکٹ فِنش بھٹو‘‘ مکمل کیاگیا۔
چوں کہ 5 جولائی سے بھٹو کی پھانسی تک ان کے بیٹوں اور بیٹی کے افکار اور خیالات سے لوگ آگاہ ہو چکے تھے۔ ان کے بیانات اور اخباری پریس کانفرنسوں اور انٹرویوز سے بھٹو کا وِژن ٹپک رہا تھا، تو پراجیکٹ کے نام میں ’’ز‘‘ کا اضافہ کرکے ’’فِنش بھٹوز‘‘ بنایا گیا۔
18 جولائی 1985ء کو بھٹوکے سب سے چھوٹے بیٹے شاہ نواز بھٹوکو اس کی بیوی ریحانہ کے ذریعے شہید کیا گیا۔ پھر اس کے بڑے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو کو 20 ستمبر1996ء کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں شہید کیا گیا۔ پراجیکٹ والے اتنے وحشی اور درندے تھے کہ بھٹو خاندان کی خاتون فرد بے نظیر بھٹو کو بھی معاف نہیں کیا۔ وہ اس خاتون کو اپنے لیے زیادہ خطرناک سمجھتے تھے۔کیوں کہ اس کے جو افکار و نظریات تھے، وہ عام لوگوں کے فلاح و بہبود کے اور لوکل اور بین الاقوامی سرمایہ داروں کے دلالوں کی ضد تھے۔ اس کے علاوہ انتخابی مہم میں وہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑنے کی جو باتیں کر رہی تھی، وہ اس گھناونے کاروبار میں ملوث بڑے بڑے لوگوں کے مفادات کے خلاف تھیں۔ وہ کھل کر اپنا ایجنڈا بیان کرتی تھی، مثلاً نظیر بھٹو نے 1 5 اگست 2007ء کو یو ایس اے کی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی ایک میٹنگ میں یہ اعلان کیا کہ وہ آئندہ انتخابات سے پہلے پاکستان جا کرانتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس نے بہت کھل کر اپنا ایجنڈا اس میٹنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا کہ ’’مَیں پاکستان کی ایسی قیادت کرنا چاہتی ہوں جو فوجی آمریت کے بوجھ سے آزاد ہو، اور ملک بین الاقوامی دہشت گردی کا گڑھ نہ رہے۔ ایک جمہوری پاکستان، جو منشیات کے ٹھیکیداروں کا تعاقب کرے، اور دہشت گردی کی فنڈنگ کرنے والے منشیات فروشی کے دھندے کا خاتمہ کرے۔‘‘
انہوں نے اس میٹنگ میں واضح کیا تھا کہ ہم ایک جمہوری پاکستان کے لیے جدوجہد کریں گے، جو اپنے عوام کی بہبود کو قومی پالیسی کا محور بنائے گی۔ آخر میں اس جملے کے نتائج کی پروا کیے بغیر کہہ ڈالا کہ ’’عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کی قوتوں سے دو دو ہاتھ کریں گے۔‘‘
پراجیکٹ والوں کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ خاتون مستقبل میں اچھی پوزیشن میں آکر ہمارے روزگار اور نوکریوں کو ختم کرے، اور ان عوامل نے اُن لوگوں کو مجبور کرکے اپنے کارندوں کو متحرک کروایا۔ انتخابی مہم کے دوران میں اس پر پے درپے حملے کیے اور آخرِکار 27 دسمبر 2007ء کو جب شام ڈھلنے والی تھی، لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے تھے، بی بی کو اپنے دنیاوی گھر کے بجائے ابدی گھر پہنچا دیا گیا۔ بی بی کی شہادت ایک قومی نقصان تھا، اور اس نقصان سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔ اس کے قتل کے جو سہولت کار تھے،آخر میں وہ بھی چیخیں گے کہ یہ ہم نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے، لیکن اس میں وقت لگے گا۔
اب بلاول کو اپنے الفاظ کے استعمال میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ کیوں کہ وہ جب بھی بولتا ہے، اپنے دادا اور ماں کی زبان بولتا ہے۔ الفاظ کے علاوہ اپنی ٹیم کے سلیکشن میں بھی بڑے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ان سفارشیوں سے جان چھڑانی چاہیے۔ خدا نہ کرے اگر بلاول پر بھی برا وقت آیا اور اُسے اپنے دادا اور ماں کی طرح آزمائش سے گزرنا پڑا، تو بلاول اپنی ٹیم سے کسی بڑی قربانی کی توقع کرے گا، اور وہ سب جیل جانے کو سب سے بڑی قربانی تصور کریں گے۔ اکثر تو اپنی چوائس کے ریسٹ ہاؤسوں میں جائیں گے۔ پھر کوئی ’’پیٹریاٹ‘‘ بنائے گا کوئی پردے کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کئی لاکھ کی مراعات لینے پر کمپرومائز کرے گا۔ کوئی راتوں رات ریفرنسوں سے اپنا نام نکال کر پارٹی میں فعال کردار ادا کرنے کے بجائے ہلکی پھلکی سرگرمیوں سے کام چلائے گا، تاکہ پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو خوش رکھا جا سکے، اور پھر جیل میں آصفہ اپنے بھائی کو اپنی دادی نصرت بھٹو کی وہ بات دہرائے گی جو اس نے جناب ذوالفقارعلی بھٹو کو جیل میں کہی تھی کہ ’’آپ نے کوئی انقلابی پارٹی چھوڑی ہے!‘‘

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔