"Extinction Rebellion” نے 7 اکتوبر سے تحفظِ ماحول کے لیے دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز کر دیا ہے۔ ان مظاہروں کا آغاز نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے ہوا۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں اس تحریک کے مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نے ایک مصروف شاہراہ کو دھرنا دے کر ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔ اس طرح ’’برسبین‘‘ میں ایک چھوٹے گروپ نے ایک پُل پر قبضہ کیا۔ نیوزی لینڈ کے دارالحکومت ’’ویلنگٹن‘‘ میں مظاہرین نے متعدد سڑکوں اور وزارتوں کے راستوں کو بلاک کیا، جب کہ کئی مظاہرین نے ایک بینک پر دھاوا بولا۔ اس ملک کی خاتون وزیر اعظم ’’جیسینڈا آرڈرن‘‘ نے جزوی طور پر ان کارروائیوں پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’’مَیں اُن لوگوں کے خلاف بالکل نہیں ہوں، جو اپنی رائے دینا یا آواز بلند کرنا چاہتے ہیں، لیکن لوگوں کو روزمرہ کے کام کرنے روک دینے سے ہم تحفظِ ماحول کے لیے کوششیں کرنے والے اپنے مقاصد سے قریب نہیں ہوں گے۔‘‘
اس تحریک کے کارکنوں نے جرمن دارالحکومت ’’برلن‘‘ میں بھی معمول کی ٹریفک معطل کردی۔ جرمن چانسلر ’’انجیلا مرکل‘‘ کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’’ہم سب ہی تحفظ ماحول چاہتے ہیں، لیکن سڑکوں پر خطرناک حملے قابلِ قبول نہیں ہیں۔‘‘
پولیس کے مطابق 7 اکتوبر کی صبح 6 بجے ہی ایک ہزار کے قریب کارکنوں نے سڑکوں کو بند کرنا شروع کردیا تھا۔ اسی طرح لندن، پیرس، میڈرڈ، ایمسٹر ڈم، نیویارک اور بیونس آئرس سمیت دنیا کے درجنوں بڑے بڑے شہروں میں بیک وقت احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس تحریک کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے: ’’ہم روزمرہ کے اُن معمولات میں خلل ڈال رہے ہیں جنہوں نے ہماری زندگی کی بنیادوں کو متاثر کیا ہے۔ ہم یہ احتجاج اس وقت جاری رکھیں گے، جب تک حکومتیں مناسب ردِ عمل ظاہر نہیں کرتیں۔‘‘
اس تحریک نے قومی حکومتوں سے ماحولیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ ایسے تمام سیاسی فیصلے، جو ماحولیاتی بحران کے حل میں رکاوٹ ہیں، انہیں واپس لیا جانا چاہیے۔ اس گروپ کی جانب سے ابھی تک سامنے آنے والے بیان کے مطابق انسانوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج 2025ء تک ہی صفر تک لایا جائے۔
برطانیہ سے شروع ہونے والی "Extinction Rebellion” کا پاکستان میں بھی آغاز ہوچکا ہے، تاہم دیگر ترقی یافتہ ممالک کی نسبت پاکستان میں اس تحریک میں ابھی کم افراد شامل ہیں۔
(ماہنامہ ’’جہانگیر ورلڈ ٹائمز‘‘، ماہِ دسمبر 2019ء کے صفحہ 32 سے انتخاب)