سپریم کورٹ کے آرمی چیف کی توسیع کے سلسلے میں حالیہ چھے ماہ کی مشروط توسیع کے فیصلے کی وجہ سے حکومت کے لیے یہ لازم ہوگیا ہے کہ وہ اس دوران میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے اس مسئلے کو حل کرے۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور دو ممبران کی تقرری کا مسئلہ بھی حل طلب ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی اور سینٹ میں قانون سازی کے لیے ماحول اور حالات سازگار اور خوش گوار بنانے کی بھی ضرور ت ہے۔ اس کے لیے حزبِ اختلاف کی پارلیمنٹ میں نمائندہ جماعتوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات از بس ضروری ہیں۔
لیکن جب ہم پندرہ ماہ کے حکومتی رویے اور انداز کو دیکھتے ہیں، تو انتہائی مایوس کن اور پریشان کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران میں حکومتی وزرا کا جارحانہ، سوقیانہ اور ناشائستہ اظہارِ خیال حالات کو خراب اور حزبِ اختلاف کو مشتعل کرتا ہے۔ اسی طرح عمران خان کی ہر تقریر حزبِ اختلاف کے خلاف سب و شتم سے شروع ہو کر الزامات و اتہامات پر ختم ہوتی ہے۔ خاں صاحب کی ہر تقریر کے بعد دونوں فریقوں میں نفرت و عداوت اور اشتعال میں اضافہ ہوتا ہے۔ حالاں کہ ملک کے بنیادی مسائل کے حل اور درپیش مختلف امور کے بارے میں قانون سازی کے لیے نارمل، پُرامن اور خوش گوار ماحول کی ضرورت ہے، لیکن بھلا ہو چیئر مین تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کا کہ وہ اب تک ڈی چوک اسلام آباد کے کنٹینر پر کھڑے قائد ِحزبِ اختلاف بنے حکومت کو للکار رہے ہیں۔
جناب والا، آپ تو سولہ ماہ سے اس ملکِ خداداد پاکستان کے سب سے بڑے اور اہم منصب پر فائز ہیں۔ آپ کا لب و لہجہ قائدِ حزبِ اختلاف کا نہیں بلکہ وزیرِ اعظم پاکستان کا ہونا چاہیے۔ آپ کی ہر تقریر ’’چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘، ’’کسی کو این آر اُو نہیں دوں گا‘‘ اور حزب اختلاف کے تمام قائدین کے لیے برے، ناشائستہ، اخلاق و آداب سے گرے ہوئے الفاظ و الزامات پر مشتمل ہوتی ہے، اور جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتی ہے۔ اول تو اگر آپ ذرا غور و فکر سے کام لیں، تو آپ کو آئینی، قانونی اور اخلاقی طور پر کسی کو این آر او دینے کا حق ہی حاصل نہیں۔ چوروں، ڈاکوؤں اور بد عنوانی میں ملوث افراد کے احتساب اور سزا دینے کے لیے تو قانونی، عدالتی اور احتساب ادارے پہلے ہی سے موجود ہیں۔ پھر ایسے میں آپ کی یہ باتیں لا یعنی ، فضول اور اپنے منصب کے تقاضوں کے منافی معلوم ہوتی ہیں۔ اس سے آپ کی شخصیت، علم اور اخلاق و کردار کے بارے میں مثبت تاثر سامنے نہیں آتا۔ مناسب اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ خود بھی اپنی زبان اور جذبات پر قابو رکھ کر مناسب لب و لہجے میں تحمل اور بردباری کے ساتھ گفتگو کریں اور اپنے وزیروں مشیروں کو بھی حد میں رہنے اور اخلاق و آداب کے دائرے میں گفتگو کرنے کا پابند کریں۔ یہ کیا کہ بعض نوآموز، نوجوان اور سیاسی اخلاق و آداب سے نا بلد ’’کھلنڈرے وزیر‘‘ آپ کو خوش کرنے کے لیے پارلیمنٹ جیسے سنجیدہ اور باوقار فورم پر اچھل اچھل کر اور منھ سے جھاگ اڑاتے ہوئے جارحانہ اور مشتعل لب و لہجہ اختیار کرکے حز بِ اختلاف کو مشتعل کریں۔ اگر آپ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، تو جن کے خلاف کرپشن ، منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔ ان کو قانون اور احتساب کے اداروں کے حوالے کریں۔ قانون اور دستور خود اپنا راستہ متعین کرے گا۔ اگر ریاست فریق ہے، تو ریاست کے پاس اپنی قانونی ٹیم ہے۔ آپ ان کو کام کرنے دیں اور اپنے طور پر بیان بازی کرکے حالات اور تعلقات کو خراب نہ کریں۔ کیوں کہ ملک کے وسیع تر مفاد اور پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے آپ کو حزبِ اختلاف کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی ضرورت ہے۔ اب اگر اسی طرح کی کشیدگی اور تناؤ برقرار رہے، تو آپ آرمی ایکٹ میں متفقہ ترمیم کس طرح کر سکیں گے؟ اسی طرح الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور ممبران کی تقرری کے لیے بھی باہمی افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔ تاکہ یہ آئینی ادارہ فعال بن کر بلدیاتی الیکشن کے لیے تیاری کرسکے۔ اگر آپ بقولِ خود پاک صاف ہیں اور آپ کی فارن فنڈنگ رقومات قانونی طور پر منتقل ہوئی ہیں، تو آپ کو فارن فنڈنگ کیس سے کسی قسم کی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ کیوں توسیع پر توسیع لے کر اپنے آپ کو مشتبہ اور مشکوک بنارہے ہیں؟ جب آپ پانچ سال سے اس کیس کو التوا کا شکار کرکے اب بھی اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں، تو آپ کے بارے میں شکوک و شبہات تو پیدا ہوں گے۔ لہٰذا اپنے آپ کو وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے قانون کے حوالے کرکے مطمئن ہو جائیں۔
اس کے علاوہ آپ نے غیر ضروری طور پر آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے سلسلے میں اپنے آپ کو ملوث کر دیا۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آرمی چیف کا آپ کے ساتھ کوئی ’’خصوصی معاملہ‘‘ ہے۔ اس وجہ سے آپ کو خدشہ ہے کہ اگر قمر جاوید باجوہ چلا گیا، تو شاید آپ بے یارو مددگار ان کی سرپرستی سے محروم ہو کر حالات کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے۔ حالاں کہ افواجِ پاکستان ایک فرد کا نام نہیں، بلکہ ایک اہم ادارے کا نام ہے۔
اس طرح تو آپ نے مخالفین کے اس الزام کو تقویت پہنچائی کہ ’’آپ نے آرمی چیف قمر باجوہ کے منصوبے اور پلاننگ کے تحت انتخابی کامیابی حاصل کی ہے۔‘‘ اگر آپ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ، تو آپ ہر گز اس معاملے میں اتنی دلچسپی کا مظاہرہ نہ کرتے، بلکہ اس کو ایک معمول کی کارروائی سمجھتے ہوئے مقررہ طریقِ کار کے مطابق نمٹاتے۔ لیکن آپ نے ’’سمری‘‘ پر ’’سمری‘‘ بھیج کر اپنے لیے جگ ہنسائی کا سامان فراہم کیا۔ پاکستانی عوام اور دنیا بھر کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ آپ کی ٹیم قانونی طور پر کتنی کمزور ہے کہ تین دنوں تک راتوں کو بیٹھ کر آپ قانونی سقم سے پاک ایک سمری تیار نہ کرسکے اور آخری مرحلے پر عدالت عظمیٰ نے آپ کی سمری سے غلطیاں نکال کر آپ کے لیے مسئلہ آسان بنایا۔ اس دوران میں عجیب و غریب بات بھی سامنے آئی کہ آرمی چیف بھی اس کمیٹی میں تشریف فرما ہیں، جو رات گئے توسیع کی سمری تیار کرنے میں مصروف ہے۔
خان صاحب، سنجیدگی اختیار کیجیے۔ دس مرتبہ تول کر بات منھ سے نکالا کیجیے۔ آپ کوئی ایرے غیرے نہیں ’’وزیرِ اعظم پاکستان‘‘ ہیں۔ ہمارے ہاں یہ روایت موجود ہے کہ خاندان میں اگر کوئی نوجوان لا ابالی ، غیر ذمہ دار اور غیر سنجیدہ ہو، تو بڑے مشورہ دیتے ہیں کہ نوجوان کی شادی کردو۔ ذمہ داری کا بوجھ پڑے گا، تو خود بخود سدھر جائے گا اور ذمہ داری محسوس کرے گا۔ اب آپ کرکٹ کے کھلاڑی نہیں اور آپ غیر شادی شدہ بھی نہیں۔ ماشاء اللہ تین مرتبہ کے شادی شدہ ہیں۔ لہٰذا اب سنجیدگی اختیار کرکے متوازن، معتدل اور اپنے منصب کے شایانِ شان رویہ اختیار کیجیے۔ کیوں کہ آپ کے بعد ہماری کوئی امید نہیں۔ اگر آپ نے ملک میں شائستہ، تحمل و بردباری اور قانون و دستور کا ماحول پروان چڑھایا، تو آپ کا امیج بہتر ہوجائے گا۔ آپ کی ایک اخلاقی اور قانون پسند شخصیت اجاگر ہوجائے گی۔ اگر آپ اس وقت کسی حادثے یا حالات کے نتیجے میں اقتدار سے محروم بھی ہوگئے، تو آئندہ کے لیے آپ کے امکانات برقرار رہیں گے اور آپ کے پاس دوبارہ کامیاب ہونے کے لیے بہت ساراا خلاقی اثاثہ موجود ہوگا، لیکن اس وقت تو آپ کے اقدامات نے تو بہت سارے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
بھلا یہ کھلی حقیقت لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو سکتی ہے کہ آپ کی پوری کابینہ سوائے چند افراد کے پرویز مشرف اور ق لیگ کے وزیروں پر مشتمل ہے۔ یہ سرور اعوان، بابر اعوان، عاشق اعوان، اعجاز شاہ، زبیدہ جلال، خسرو بختیار، شیخ رشید اور دیگر بہت سارے کون لوگ ہیں؟ کیا یہ وہی نہیں، جو پرویز مشرف کے وزیر، مشیر اور ’’امریکی ایجنٹ‘‘ رہے ہیں۔ کیا وہی ڈاکو آپ کی پنجاب اسمبلی کا سپیکر نہیں، کیا وہی شیخ رشید جس کو آپ ’’چپڑاسی‘‘ بھی رکھنے کو تیار نہیں تھے اور جو پرویز مشرف کو ’’میرا سید‘‘ کہہ کر پکارتا تھا، وہ آپ کا وزیر نہیں؟ جب آپ دوسروں کی طرف انگلی اٹھا کر چوری اور کرپشن کا الزام لگاتے ہیں، تو آپ کی تین انگلیاں آپ کو اشارہ کرکے یہ نہیں کہہ رہی ہیں کہ یہ علیم خان، علیمہ باجی، پرویز خٹک، جہانگیر ترین اور دیگر بہت سارے بھی نیب کو مطلوب اور کرپشن میں ملوث ہیں۔ ان کو استثنا کیوں؟ ان کو تحفظ کیوں؟ کیا عوام کی آنکھیں بند ، کان بہرے اور زبانیں گونگی ہیں کہ وہ ایم کیو ایم جس کے خلاف آپ لندن میں ثبوت اکھٹے کرنے کے لیے گئے تھے، وہ جو بوری بند لاشوں کے مؤجد ہیں، وہ جو بلدیہ فیکٹری کے دو سو مزدوروں کو جلانے میں ملوث ہیں، وہ جو حکیم سعید جیسے ولی اللہ اور صلاح الدین جیسے بے باک اور مجاہد صحافی کے قتل میں ملوث ہیں، وہ جنہوں نے کراچی اور حیدر آباد کو قتل و خون کا مرکز بنا دیا، وہ آپ کے چہیتے، ہم نوالہ و ہم پیالہ بن کر نفیس و نستعلیق قرار پائے۔
خان صاحب، واقعی اقتدار و اختیار میں کشش ہے۔ یہ ایک طاقتور مقناطیس ہے، جو ہر طالع آزما اور حریص کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، لیکن اگر آپ کو ذرا سوچنے اور غور کرنے کا موقع ملے تو ضرور سوچیے کہ آپ نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ ورلڈ کپ جیتنے والا کپتان اپنی ایک انفرادیت اور شخصیت رکھتا تھا۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال بنانے والا عمران خان ایثار اور قربانی کا استعارہ بن چکا تھا، لیکن شاید یہ نیک نامی آپ کو راس نہیں آئی، اور آپ ایک ایسی دلدل اور بھنور میں پھنس گئے جس نے آپ کی شخصیت، خوبصورتی اور عوامی مقبولیت کو گہنا کر رکھ دیا۔ آپ کو پہلے مرحلے میں صوبہ خیبر پختون خوا میں حکومت کے لیے پانچ سال مل گئے، لیکن آپ نے پانچ سال نعروں، وعدوں اور دعوؤں میں گزار دیے اور کچھ بھی ڈلیور نہیں کیا۔ بی آر ٹی منصوبہ آپ اور آپ کی ٹیم کی نااہلی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ بجائے اس کے کہ آپ محکمۂ تعلیم میں مؤثر اور دور رس اصلاحات کرکے یکساں نظامِ تعلیم رائج کرکے پوری قوم میں مساوات قائم کرتے، آپ نے رہے سہے نظام کو انتشار اور افراتفری کا شکار کیا۔ محکمۂ صحت کا تو آپ نے بیڑا ہی غرق کر دیا۔ اگر آپ کے پاس پارٹی کے اندر مؤثر، تجربہ کار اور مخلص ٹیم ہوتی، تو آپ ہر گز شاہی احکامات کے ذریعے ڈاکٹر برادری کو ناراض اور رنجیدہ نہ کرتے بلکہ افہام و تفہیم کے ساتھ مؤثر ضابطۂ اخلاق تشکیل دے کر عوامی صحت کے لیے ماحول خوش گوار بناتے۔ لیکن آپ نے ڈاکٹر جیسی معزز برادری پر لاٹھی چارج اور پولیس گردی کا مظاہرہ کیا، اور ڈاکٹرز کو طویل ہڑتال پر مجبور کیا۔
خاں صاحب، آپ کو بر سرِ اقتدار آئے ہوئے تقریباً سولہ ماہ ہوگئے ،لیکن آپ آئے روز بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کرتے ہوئے کوئی مضبوط، قابل اور مخلص ٹیم تشکیل نہیں دے سکے۔ وزارتِ خزانہ کے بھاری بوجھ سے تو آپ نے نجات حاصل کرکے پوری وزارت آئی ایم ایف کے حوالے کردی۔ غضب خدا کا سٹیٹ بینک کا گورنر ان کا ملازم، وزیرِ خزانہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا پرانا نمک خوار اور ایف بی آر کا چیئرمین بھی ان کا بندہ۔ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شرائط جن کے تحت آپ نے چھے ارب ڈالر تین سال کے عرصے میں قسط وار حاصل کرنے کا معاہدہ کیا ہے، کیا وہ شرائط آپ قومی اسمبلی میں پیش کر سکتے ہیں کہ کن شرائط پر آپ نے یہ معاہدہ کیا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ آپ نے بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کا اختیار ان کو تفویض کیا ہے؟ جبھی تو آئے روز بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں گرانی اور مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ پینتالیس وزرا، مشیر اور ’’معاونینِ خصوصی‘‘ پر مشتمل فوج ظفرِ موج کیا اس وعدے اور دعوے کی نفی نہیں کہ ’’مَیں مختصر کابینہ بناؤں گا۔‘‘، ’’اخراجات کو کم کروں گا۔‘‘ اور ’’کفایت شعاری اختیار کروں گا۔‘‘ آخر ان سولہ ماہ کے دوران میں آپ نے کون سا وعدہ پورا کیا؟ ’’ایک کروڑ نوکریاں‘‘ اور ’’پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر‘‘ کو تو خیر ہم آپ ایک ’’بے بنیاد انتخابی نعرہ‘‘ کہہ کر نظر انداز کرسکتے ہیں، لیکن یہ جو کارخانے بند ہورہے ہیں اور لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں، تاجر پریشان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، صنعت کار اپنا سرمایہ دوسرے ملکوں کو منتقل کررہے ہیں، یہ سب کیا ہے؟
خدارا، خان صاحب! اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو موقع دیا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھائیے۔ اس وقت کا انتظار مت کیجیے کہ بعد میں آپ ہاتھ ملتے ہوئے ’’مجھے کیو ں نکالا؟‘‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور ہوں۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔