بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق وزیرِاعظم عمران خان نے ماحولیاتی آلودگی اور اس حوالے سے حکومتی اقدامات پر لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’لاہور میں گذشتہ 10 سال میں 70 فیصد درخت کاٹے گئے ہیں جس کی وجہ سے آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
جب کہ اسلام آباد میں کلین اینڈ گرین انڈیکس پاکستان کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے کہا کہ ’’جب لاہور میں ترقیاتی کام ہو رہے تھے، تو کسی نے نہیں سوچا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ پچھلے 10 برسوں کے اندر لاہور کے 70 فیصد درخت کاٹے گئے، اس کا نتیجہ تو ٓآنا تھا۔‘‘
وزیر اعظم عمران خان کی ان باتوں کے تناظر میں اگر سوات میں ترقیاتی کاموں اور سیاحت کے فروغ کے نام پر پی ٹی آئی کے حکومتی اقدامات کا جائزہ لیا جائے، تو یہاں پر بھی وہ کچھ کیا جارہا ہے جو لاہور میں ترقیاتی کاموں کے نام پر کیا گیا، اور جن کے نتائج پر اَب سب رو رہے ہیں۔ لہٰذا سوات کو دوسرا لاہور بنانے سے پہلے ترقیاتی اور سیاحت کے فروغ کے نام پر جو کام کیے جا رہے ہیں، ان کے دور رس منفی نتائج و عواقب دس سال بعد بھگتنا شروع ہونے سے پہلے آج ہی ان پر سوچنے اور ان کی راستہ روکنے کی ضرورت ہے، تاکہ اُس پشیمانی اور افسوس سے بچا جائے، جس کا پھر کوئی فائدہ ہی نہ ہو۔
اگرچہ بعض افراد سوات میں سیاحت مبالغ آمیز حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، اور اسے سوات کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی گردانتے ہیں، لیکن اس دعویٰ کی پشت پر کوئی ٹھوس اعداد و شمار اور زمینی حقائق نہیں۔ سیاحت نہ تو پہلے کبھی سوات کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حامل رہی ہے اور نہ اس وقت ایسا ہے۔ معلوم تاریخ میں زراعت سوات کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حامل رہی ہے، اور آج بھی بہ حیثیت مجموعی ایسا ہی ہے۔ 1970ء کی دہائی سے سوات کی معیشت میں دوسرا اہم جز باہر کی ممالک سے کمائی ہوئی دولت جب کہ تیسرا جز بحیثیتِ مجموعی سرکاری ملازمتیں ہیں۔ ان کے بعد دوسری معاشی سرگرمیاں ہیں جن میں سیاحت کا نمبر بہت پیچھے ہے۔ سیاحت کے نام پر عام طور پر سوات میں ہوٹلوں کا ذکر کیا جاتا ہے، لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ سیاحتی مقامات میں جتنے ہوٹل ہیں ان میں اہلِ سوات کے کتنے ہیں؟ نیز ان سے حاصل شدہ آمدنی کا سوات کی مجموعی معیشت میں کتنا حصہ ہے اور پھر اس حاصل شدہ آمدن میں سے کتنا سوات ہی میں رہ جاتا ہے؟ ان ہوٹلوں میں زیادہ تر سوات سے باہر کے افراد کے ہیں اور اس وجہ سے ان کی کمائی ہوئی دولت سوات سے باہر جاتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ ہوٹل سوات کی معیشت میں کوئی قابل ذکر حصہ نہیں ڈالتے۔ ان سیاحتی مقامات جیسا کہ میادم، مدین، بحرین اور کالام میں بے ہنگم تعمیرشدہ ہوٹلوں نے اُن سیاحتی مقامات کا جو حشر کر ڈالا ہے اور ان کا حلیہ جس طرح بگاڑ کر ان کے قدرتی مناظر کے خاتمے کاباعث بنے ہیں، وہ ایک الگ داستان اور لمحۂ فکریہ ہے۔ علاوہ ازیں اس مزعومہ سیاحتی ترقی کو سوات اور یہاں کے باشندوں کی ترقی پر محمول کرنا دانشمندی نہیں۔ درحقیقت یہ سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ داروں کی ترقی کے منصوبے ہیں اور اِن سے اُن ہی کے وارے نیارے ہوں گے، نہ کہ سوات کے عوام کے۔ بہ طورِ مثال، ملم جبہ کے ہوٹل اور سیاحتی مرکز سے وہاں کے مقامی باشندوں کی کتنی ترقی ہوئی؟ وہ تو اپنی زمینوں کی ملکیت، کیبنوں اور خودروزگاری سے محروم ہوگئے۔ جب کہ سوات کے دوسرے علاقوں کے باشندے جو پہلے اپنے ساتھ تیار کھانا لے کر بغیر کسی انٹری فیس کے وہاں جاکر قدرتی نظاروں اور ماحول سے لطف اندوز ہوتے تھے، انہیں اس سہولت سے محروم کر دیا گیا۔ اب انہیں نہ صرف گاڑی کا خرچہ یا کرایہ برداشت کرنا پڑتا ہے، بلکہ دوسری ادائیگی بھی کرنا پڑتی ہے۔ یہ عمل ڈھیر سارے لوگوں کے لیے وہاں جانے کی راہ میں رکاوٹ بنتا جا رہا ہے۔
ایک وقت تھا جب ’’مینگورہ‘‘ سوات میں سیاحوں کے لیے مرکزی مقام تھا۔ اس کے بعد مدین، پھر بحرین اور پھر کالام ایسے مقامات بن گئے۔ تاہم بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات اور دوسرے اقدامات نے سیاحت کا فروغ تو دور کی بات، ان مقامات کا حلیہ ایسا بگاڑ دیا کہ ان مقامات کو سیاحتی مقامات کہنا سیاحتی مقامات کی تذلیل و تضحیک کے مترادف ہے۔
اس پس منظر میں موجودہ حکومتی ، پرائیویٹ اداروں اور سرمایہ کاروں کے اقدامات سوات کے حسن، زرخیز زرعی زمین اور پہاڑوں کی تباہی اور مردہ بنانے کے غماز اور پیش خیمہ بننے والے نظر آرہے ہیں۔ سوات کی زرخیز زرعی زمین پر اگر ایک جانب پہلے سے بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بے ہنگم اور بلامنصوبہ بندی کی جانی والی تعمیرات کا دباؤ ہے، تو دوسری جانب ہوائی اڈا کی توسیع، فوجی چھاؤنی اور جگہ جگہ فوجی قلعہ جات اور بیسز کی تعمیر کے منصوبے، نیز اس طرح دوسرے ممکنہ منصوبے جیسا کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی وغیرہ کی تعمیرات بھی اس کے سر پر لٹک رہی ہیں۔
ان سب پر مستزاد، سوات ایکسپریس وے کے نام پر سیاحت کے فروغ کی آڑ میں وادیِ سوات کے کھلے اور ہموار حصے میں زرخیز زرعی زمینوں پر دست اندازی اور اس کے مردہ بنانے کا منصوبہ ہے۔ ترقیاتی کام کی آڑ میں یہ تخریبی کام نہ صرف متعلقہ مالکانِ اراضی کو ان کی ملکیت سے محروم کرے گا، بلکہ سوات کی زرخیز زرعی زمین کا خاتمہ بھی کرے گا۔ اس سے وادی کا حسن خراب ہوگا۔ ایکسپریس وے سے دوسری جانب وادی نظر نہیں آئے گی اور اس سے دریا کی جانب رہ جانے والی زمین سے متعلقہ مالکان کا رابطہ کٹ جائے گا۔ نیز اس کے نتیجے میں منفی موسمیاتی تبدیلی بھی آئے گی۔ اس لیے کہ ایکسپریس وے سطحِ زمین سے کافی بلند ہوگی، جس کی وجہ سے یہ دریائے سوات کی ہوا ؤں کے رُخ میں رُکاؤٹ بن کر سوات میں مہیب موسمیاتی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
ترقیاتی کام اور ترقی ناگزیر ضرورت ہے اور انفراسٹرکچر یا بنیادی ضروری ڈھانچا کے بغیر یہ ناممکن ہے، لیکن اس انفراسٹرکچر اور ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی میں ترقی یافتہ ممالک کی طرح اس کے دوسرے رُخ اور منفی عواقب کو بھی مدِنظر رکھنا ہے، اور اُن کی بروقت رو ک تھام کے اقدامات کرنے ہیں، جن میں ان منصوبوں کا ماحولیاتی اثر کا نتیجہ (انوائرنمنٹل ایمپیکٹ اسسمنٹ) بھی شامل ہے۔ ایسا نہ ہو کہ پھر دس سال بعد اس وقت کے وزیر اعظم کو یہ کہنا پڑے کہ ’’ جب سوات میں ترقیاتی کام ہورہے تھے، تو کسی نے نہیں سوچا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ پچھلے دس برسوں کے اندر سوات کی 70 فی صد زمین ایکسپریس وے، ہوائی اڈا، فوجی چھاؤنی وغیرہ کی خاطر مار دی گئی۔ اس کا نتیجہ تو آنا تھا۔ ‘‘
سوات میں موجودہ سڑکوں کے تارکول شدہ حصے کو کشادہ کرکے یہی سڑک ایکسپریس وے کا متبادل حل پیش کرتی ہے۔ اس میں کوئی مشکل بھی نہیں۔ اس لیے کہ پہلے ہی ان سڑکوں کے دونوں اطراف لوگوں سے ان کی تعمیرات گروا کے انہیں کشادہ کیا گیا ہے۔ صرف ان کے تارکول والے یا ٹریفک کے استعمال والے حصوں کو کشادہ کرنے کی ضرورت ہے جس پرلاگت بھی ایکسپریس وے کے مقابلے میں بہت کم ہی آئے گی۔

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔