فرانس میں مقیم مسلم کمیونٹی نے ملک بھر میں اسلاموفوبیا کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔ پیرس سمیت فرانس کے مختلف شہروں میں مسلمانوں نے پُرامن ریلیاں نکال کر فرانسیسی و اور یورپی عوام میں اسلام کے خلاف خود ساختہ خوف کو دور کرنے کی کوشش کی۔ فرانس جیسے ملک میں اسلام کے خلاف نسلی امتیاز اور لڑائی کو بھڑکانے کی منظم کوشش ایک عرصے سے ہو رہی ہے۔
’’اسلامو فوبیا‘‘ کی اصطلاح خصوصی طور پر مسلمانوں کے لیے 1976ء میں متعارف کرائی گئی تھی، لیکن اس میں اتنی شدت نہیں تھی، تاہم 11 ستمبر 2011ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ڈرامائی حملے کے بعد اسلامو فوبیا کا لفظ شدت سے استعمال کیا جانے لگا۔ یہ لفظ دراصل یونانی لفظ ’’فوبیا‘‘ (ڈر جانا) کے ساتھ باندھ کر وضع کیا گیا ہے، جس کے معنی اسلامی تہذیب سے خوف زدہ ہونا، مسلم نسلیت سے ڈر جانا کے ہیں۔ آسان الفاظ میں جب غیر مسلم، اسلام سے خوف محسوس کرتا ہے، تو اس کو ’’اسلامو فوبیا‘‘ کہا جاتا ہے۔
فرانس میں نسلی امتیاز بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے۔ منٹگمری واٹ کااسلامی انسائیکلوپیڈیا، آر نکلسن کی تاریخِ ادبیاتِ عرب، ڈاکٹر ہیٹی کی تاریخِ عرب، جوزف شافت کی فقۂ اسلامی کے ابتدائی ماخذ، گولڈزہیر کی اسلامی عقیدہ وشریعت اور ڈبلیو سی اسمتھ کی اسلام اور جدید دنیاجیسی اَن گنت کتابوں میں مذہبی تعصب کی بنا پر اسلام و مسلمانوں کی منظر کشی میں تین چیزوں کو بہت نمایاں کیا گیا ہے، کہ مسلمان انتہائی خوں خوار شکلوں والے ایسے انسان، جن کے ہاتھ میں تلوار ہے اور جہاں یہ جاتے ہیں، قتل و غارت اور لوٹ مار کرتے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے حرم سراؤں میں بے شمار بیویاں اور کنیزیں ایک مرد کے تصرف میں ہوتی ہیں، اور تیسری بات یہ کہ ان کے نزدیک اونٹ ایک مقدس جانور ہے، جس کے بغیر مسلمان زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
مغربی مؤرخین نے احادیث اور اسلامی تاریخ کے ایسے ضعیف حصے منتخب کیے جس کو من پسند معنی پہنا کر اسلام کی مقدس شخصیات کو مشکوک بنانے کے لیے استعمال کیا اور آج ان مغربی مصنفین کی تحریریں دنیا بھر میں ایک اتھارٹی کا درجہ رکھتی ہیں۔ کوئی پلٹ کر ان میں درج مواد کے سچے یا جھوٹا ہونے کے بارے میں تحقیق نہیں کرتا، اور نہ ان تاریخی کتب کے اندر ایک مقصد سے ڈالی گئی جھوٹی کہانیوں کا پتا ہی چلاتا ہے۔ اس ساری خرافات کا آغاز ایک متعصب رومن مؤرخ تھیوفنس (Theophanes the confessor) نے رسول اکرمؐ سے متعلق ایک گستاخانہ سوانح عمری لکھ کر کیا تھا۔ یہ شخص 758ء میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی اس کتاب کو بعد کے مصنفین نے بنیادی ماخذوں کا درجہ دیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اقوامِ متحدہ میں تقریر کے دوران میں ’’اسلامو فوبیا‘‘ کے حوالے سے بھی بڑا مدلل خطاب کیا تھا، اور اس کو دور کرنے اور اسلام کی اصل شناخت اور تاریخ سے آشنا کرنے کے لیے ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ انگریزی چینل بنانے کا اعلان کیا تھا، تاہم اس حوالے سے تینوں ممالک کی پیش رفت سے آگاہی نہیں۔ پاکستان اس وقت سیاسی و معاشی بحران سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔ ترکی علیحدگی پسند کرد ’’وائی پی جی گروپ‘‘ کے خلاف جنگ میں مصروف ہے ۔ جب کہ ملائیشیا اس وقت بھارت کے ساتھ تجارتی جنگ میں الجھاہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر مسلمانوں کے حق میں بیان دینے اور اس پر قائم رہنے کی وجہ سے ملائیشیا کو مصنوعات کے بائیکاٹ کا سامنا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 26 ستمبر 2019ء کو انگریزی زبان میں کے چینل کے حوالے سے بیان جاری کیا تھا، تاہم اس کے بعد کسی بھی قسم کی پیش رفت پر تینوں ممالک کی وزارتِ اطلاعات کی جانب سے خاموشی ہے۔
’’اسلامو فوبیا‘‘کے خلاف مقابلہ کرنے اور اسلام کا حقیقی تشخص سامنے لانے کے لیے یہ بہت اہم فیصلہ ہے، لیکن تینوں ممالک کے داخلی مسائل اس قدر گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں، کہ اس اہم اعلان پر عمل درآمد اور سست روئی مایوس کن ہے ۔
فرانس کے ’’انٹرا رائٹ گروپس‘‘ مسلمانوں کے خلاف حملوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ ’’لین پین‘‘ فرانسیسی صدارتی امیدوار مہاجرین کی شدید مخالف تصور کی جاتی ہیں۔ دائیں بازو کے شدت پسندوں کی جانب سے مساجد اور مسلمانوں پر حملوں کی کئی منصوبہ بندیوں کو فرانسیسی انٹیلی جنس ادارے، ڈی جی ایس آئی کے ساتھ مل کر ان منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے کام کرتے ہیں، اوردائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کئی شدت پسندوں کو گرفتار بھی کرچکے ہیں۔
فرانس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی شدت میں اضافہ اُس وقت سامنے آیا تھا، جب نبی اکرمؐ کے خلاف گستاخانہ خاکے ’’چارلی ایبڈو‘‘ نے شائع کیے تھے، اور مسلم امہ کے جذبات کو مجروح کیا تھا، جس کے بعددو مسلمان بھائیوں نے پیرس کے شمال مشرقی علاقے ’’دامارٹن آں گوئل‘‘ میں واقع رسالے کے دفتر میں گھس کر چار کارٹون نگاروں سمیت میگزین کے مدیر سمیت چار صحافیوں کو ہلاک کردیا تھا۔ فرانسیسی رسالے کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کے جاری رہنے اور حکومت کی جانب سے تحفظ کے سبب مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت میں اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ اس کے اثرات فرانس کے ہمسایہ ملک جرمنی تک پھیل گئے تھے، جہاں مختلف شہروں میں ’’مغرب کی اسلامائزیشن‘‘ کے خلاف اسلام مخالف یورپی تنظیم ’’پیگیڈا‘‘ (پیٹریاٹک یورپیئنز اگینسٹ اسلامائزیشن) اور اس تنظیم کے مخالفین نے جلوس نکالے ۔پیگیڈا کا دعویٰ ہے کہ جرمنی پر ایک لحاظ سے مسلمانوں اور دیگر تارکینِ وطن سے قبضہ کر لیا ہے۔
گذشتہ دنوں فرانس میں مسلمانوں کے خلاف دائیں بازو کے شدت پسندوں کی جانب سے انتہا پسندی کے مسلسل واقعات کے سبب مسلم کیمونٹی نے حکومت اور عالمی برادری کی توجہ ’’اسلامو فوبیا‘‘ کی جانب مبذول کرانے کے لیے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے، تاکہ بے بنیاد پروپیگنڈوں اور اسلا م مخالف سوچ کی حامل دائیں بازو کے شدت پسندوں کے حملوں کو روکنے کے لیے فرانسیسی حکومت اور عالمی برداری کو بیدار کیا جاسکے۔ کیوں کہ ان انتہا پسندوں کی وجہ سے مسلمانوں کی مساجد محفوظ نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو اپنی عبادات کرنے میں شدید پریشانی اور خوف کا سامنا رہتا ہے۔ خاص طور پر تارکینِ وطن کے لیے شدید مشکلات ہیں اور انہیں قدم قدم پر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان، ترکی اور ملائیشیا نہ جانے کب ’’اسلامو فوبیا‘‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔ تاہم مسلم اکثریتی ممالک کو اس کے خلاف سفارتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، تاکہ مسلمان دائیں بازو کے شدت پسندوں سے محفوظ رہ سکیں۔ فرانس میں صرف انفرادی حملوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کے سیکڑوں واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ترقی یافتہ اور سلامتی کونسل کا اہم رکن ہونے کے باوجود مسلمانوں کے لیے فرانس میں رہنا اور کام کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ کسی مسلم کو ’’اسلامو فوبیا‘‘ کے نام پر انتہا پسندی سے بچنے کے لیے ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت رہتی ہے۔ ایسے حالات ترقی یافتہ ممالک میں ہونا تشویش ناک ہیں۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔