پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ مذہب کے متعلق اظہار پر کوئی پابندی نہیں۔ جب بھی شعائرِ اسلام پر بات ہو، تو اس میں دو نمایاں تفریقات نظر آتی ہیں۔ اوّل، سمجھا جاتا ہے کہ حکومت کا بیانیہ مذہبی کارڈ نہیں۔ دوم، مذہبی؍ سیاسی جماعت کا مذہب پر بات کرنا مذہبی کارڈ ہے۔
قارئین، دلچسپ صورتحال ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جب سے ’’آزادی مارچ‘‘ اسلام آباد دھرنے کا اعلان کیا ہے، تو حکومت سے زیادہ متحدہ اپوزیشن زیادہ پریشان نظر آرہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی بجائے اپوزیشن نہیں چاہتی کہ آزادی مارچ ہو۔ حکومتی وزرا، جو اَب تک مولانا فضل الرحمان کو بارہواں کھلاڑی سمجھ کر طنز و تضحیک کا نشانہ بناتے رہے ہیں، لیکن جیسے جیسے 27 اکتوبر کی تاریخ نزدیک آرہی ہے، حکومتی ایوانوں میں لرزہ کو بھی واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تقریباً سبھی قسم قسم کی تاویلات پیش کرنے لگے ہیں۔ مدارس سے اپیلیں بھی کی جا رہی ہیں کہ طلبہ آزادی مارچ میں شرکت نہ کریں، وغیرہ۔ عجیب نظریہ ہے کہ کالج اور یونی ورسٹی کے طلبہ و طالبات سیکولر جماعتوں کے جلسوں میں شرکت کریں، تو وہ جمہوریت کا حسن ہے، لیکن مدارس کے طلبہ و طالبات شریک ہوں، تو وہ شدت پسند یا انتہا پسند ہیں۔ یہ پیمانہ غیر منصفانہ سا لگتا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں وزیر اعظم کی جانب سے کی جانے والی تقریر کے دو نِکات کو ہی دیکھ لیں کہ عمران خان نے ریاست کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے شعائرِ اسلام، توہینِ مذہب، توہینِ رسالتؐ اور یہاں تک کہ اسلام کے اہم ترین رکن جہاد پر کھل کے سیکولر پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر بات کی، لیکن یہی باتیں کوئی مذہبی رہنما کرے، تو فوراً اُسے ’’مذہبی کارڈ کا استعمال‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ان کے بیانات پر تشویش کا اظہار شروع ہوجاتا ہے۔ ملک کا آئین اسلامی اور جمہوری ہے۔ سیکولر سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں یا پھر اپوزیشن میں، سیاست میں مذہب کی مداخلت کو قبول ہی نہیں کرتیں۔ ان کے نزدیک سیاست میں مذہب کا عمل دخل ہی نہیں ہونا چاہیے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پی پی پی، اے این پی اور پی ایم ایل (ن) مولانا فضل الرحمان کی جانب سے آزادی مارچ کے دھرنے میں شرکت سے گریزاں ہیں کہ کہیں شرکائے کار تبدیل نہ ہوجائیں ۔
اس تمام تر صورتحال میں بلاول بھٹو زرداری کا بیان قابلِ غور ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں ڈاکٹر طاہر القادری نے سابق وزیرِ اعظم کے خلاف جس طرح مسلک کا استعمال کیا۔ وہ کوئی بھولی بسری داستان نہیں۔ کفن پہننا، قبریں کھودنا، کربلا کی تمثیل پیش کرنا وغیرہ وغیرہ۔ ہم قریب سے دیکھ چکے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کا احتجاج ختم کرانے کے لیے حکمراں اور اپوزیشن کے سردی میں پسینے چھوٹ گئے تھے۔ فیض آباد میں تحریک لبیک کے دھرنے تو پورے پاکستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکے تھے، اور کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا تھا کہ مسلح خانہ جنگی شروع ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ تحریک انصاف کی قیادت اور رہنما بھی مذہبی کارڈ والے جلسوں، دھرنوں اور احتجاجوں میں شریک ہوچکے ہیں، لیکن اب ایسا کیا ہونے جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی گذشتہ سال بھر کی تیاریوں کو حکومت سے زیادہ اپوزیشن جماعتیں متاثر کرنا چاہتی ہیں۔ نومبر میں ملک بھر میں سردیاں بڑھ جائیں گی۔ دسمبر میں عروج پر ہوں گی۔ کیا سرد موسم میں دھرنا کو ناکام بنانا مقصود ہے؟ صدارتی نظام پر غور ہو رہا ہے یا کوئی ڈیل ہو رہی ہے،جس کے لیے وقت درکار ہے؟ بات کچھ کچھ سمجھ سے باہر ہے!
مولانا فضل الرحمان کا احتجاج اور دھرنا آئین کے مطابق ہے، لیکن وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا مظاہرین کو جبراً روکے جانے کا اعلان تشدد کو ہوا دینے کے لیے کافی ہے۔ یہ تو وہی منظر پیش کرے گا جب سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک اسلام آباد لاک ڈاؤن کے لیے روانگی پر وفاق اور صوبہ آمنے سامنے اور موٹر وے میدانِ جنگ بن گیا تھا۔ شیخ رشید موٹر سائیکل پر بیٹھ کر آنکھ مچولی کرتے ہوئے کمیٹی چوک پہنچ گئے تھے۔ تحریک انصاف کرینوں کے ساتھ رکاؤٹیں ہٹا کر ریڈ زون پہنچ گئی تھی۔ تو جے یو آئی(ایف) کے مارچ پر حواس باختگی کی کیا وجہ ہے؟ کیا امپائر کارکردگی سے مایوس ہیں؟ قومی حکومت کا تجربہ تو موجودہ حکومت کی شکل میں پہلے ہی سے موجو د ہے۔ کیا صدارتی یا مصری طرز کا نظام زیرِ غور ہے؟
مولانا فضل الرحمان تو خود کئی بار دہشت گردی کا نشانہ بننے سے بال بال بچے ہیں۔ ان کے کئی اہم رہنما خودکش حملوں میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ جمہوری و سیاسی نظریہ کی وجہ سے انتہا پسند تنظیموں اور مولانا فضل الرحمان کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں، تو پھر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
قارئین، جے یو آئی ایف سے اختلافات اپنی جگہ لیکن غیرجانب دار ہوکر لمحہ بھر کے لیے سوچیں کہ دراصل مولانا فضل الرحمان اپنے لاکھوں پیروکاروں کو جمہوری نظام کے دائرے میں شامل کیے ہوئے ہیں۔ اگر سیاسی طور پر مولانا فضل الرحمان لاکھوں پیروکاروں کو اُس جمہوری نظام میں نہیں لاتے (جسے انتہا پسند کفر کا نظام قرار دیتے ہیں) تو سوچنے کا مقام ہے کہ ان لاکھوں پیروکاروں کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا انہیں سیکولر جماعتوں میں شامل ہونا چاہیے؟ یقینی طور پر سیاسی پلیٹ فارم نہ ملنے پر یہ مخصوص مکتبۂ فکر سے وابستہ لوگ خدانخواستہ کسی انجانے راستے پر جا سکتے ہیں، تو ان حالات کی ذمے داری کون قبول کرے گا؟
مولانا فضل الرحمان جس ایجنڈے کے تحت بھی اسلام آباد آرہے ہیں، اُسے انتہا پسندی یا مذہبی کارڈ سے جوڑنا بالکل مناسب نہیں۔ کیوں کہ جو کچھ جلسے جلوسوں میں دیگرسیکولر جماعتیں کہتی رہتی ہیں، انہیں کچھ پر مذہبی رہنما بھی عوامی جذبات کو ابھارنے کے لیے اپنی خطابت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہاں اس بات کا اظہار مقصود نہیں ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو احتجاج کرنا چاہیے یا نہیں، مظاہرہ کامیاب ہوگا یا ناکام؟ اس پر فی الوقت کوئی بحث ہی نہیں ہے۔ بس مدعا یہ ہے کہ جب آئینِ پاکستان میں احتجاج سب کے لیے جائز ہے، تو کسی مذہبی جماعت کے واسطے شجرِ ممنوع کیوں کر ہوسکتا ہے؟ اور ایسی مذہبی جماعتوں کے لیے جو ہزاروں مدارس کے لاکھوں طالب علموں کو انتہا پسندی کے ماحول سے ہٹا کر ملکی روایتی سیاسی روش کے تحت جمہوری انداز میں شامل کرچکے ہیں، اور ان کی سمت بھی جمہوریت و پارلیمان کے ذریعے کسی بھی قانون کی تبدیلی ہے، تو ہمیں ان کی راہ میں رکاؤٹیں کھڑی کرنے اور کانٹے بچھانے کی بجائے انہیں جمہوری حق استعمال کرنے کی مکمل آزادی دینی چاہیے۔ اگر مظاہرین پُرامن رہ کر اپنا جمہوری حق استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو اس کا استحقاق انہیں مملکت کے آئین نے دیا ہے۔ جب آپ ملکی آئین کو مانتے ہیں، تو اس میں دیے گئے حقوق کو بھی مانیں۔ ان کا نکتۂ نظر سمجھیں۔ بالفرض کچھ غلط ہے تو مناظرہ کریں، گفت و شنید کریں، مذاکرات کریں، لیکن کسی اسٹیک ہولڈر کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں بزورِ قوت روکنا تشدد کو جنم دے گا جو کسی کے حق میں بہتر فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
بلاشبہ اس وقت مملکت کسی نئے جھمیلے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ موجودہ داخلی و خارجی صورتحال بھی اطمینان بخش نہیں۔ اس لیے مقتدر حلقوں کو تشویش ہے اور اس تشویش کو مذاکرات کے ذریعے دور کرنے کی ضرورت ہے۔

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔