مولانا فضل الرحمان اپنی سیاسی زندگی کے اُتار چڑھاو اور نشیب و فراز سے گزر کر اب میدان سیاست کے ایک منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی بن چکے ہیں۔ شروع ہی سے مولانا اپنی سیاسی اور انتخابی حیثیت کے مطابق ہر حکومت میں چاہے وہ ن لیگ کی ہو یا پیپلز پارٹی کی، حصہ بقدر جثہ کے مطابق شامل رہے ہیں۔ ماحول ان کے لیے کیسا ہی ناساز گار ہو، لیکن وہ اپنی محدود انتخابی سیٹوں کے ذریعے جوڑ توڑ اور سود ے بازی کرکے اپنے لیے گنجائش نکال ہی لیتے تھے۔ پرویز مشرف کے فوجی دورِ حکومت میں جب نواز شریف زیرِ عتاب اور جلاوطن تھے، مولانا ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے پرویز مشرف کے حلیف اور ان کے ساتھ شامل اور شریک تھے۔ حتیٰ کہ پرویز مشرف کے تمام غیر قانونی اور غیر دستوری اقدامات کو سترہویں ترمیم کے ذریعے تحفظ اور قانونی اور آئینی جواز عطا کیا۔
نواز شریف کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد خیال تھا۔ کہ نواز شریف جیسا کینہ توز شخص مولانا کے اس عظیم جرم کو ہرگز معاف نہیں کرے گا اور مولانا کسی صورت نواز حکومت میں اپنے لیے کوئی حصہ حاصل نہیں کر سکیں گے، لیکن اس کو اگر مولانا کی سیاسی جادوگری کا کرشمہ کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا کہ آخرِکار نواز شریف نے حالات سے مجبور ہو کر اور پچھلے تمام واقعات نظر انداز کرکے مولانا کو حکومت میں باقاعدہ شامل کیا۔ پیپلز پارٹی تو گویا مولانا کی فطری حلیف اور اتحادی پارٹی ہے۔ بے نظیر زرداری کی حکومت میں بھی مولانا نہایت اہم منصب ’’کشمیر کمیٹی‘‘ کے چیئر مین تھے، اورا س کے بعد زرداری کے دورِ صدارت میں بھی مولانا پیپلز پارٹی کا حصہ رہے۔ اگر دیکھا جائے، تو مولانا فضل الرحمان وقت کے سیاسی دھارے کے ساتھ دریا کے بہاؤ کے ساتھ تیرتے رہتے ہیں۔ ان کے سامنے کوئی غیر معمولی ایجنڈا نہیں۔ نہ انہوں نے کبھی پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کی بات کی۔ نہ انہوں نے ہر دو بڑی پارٹیوں کی امریکہ نوازی، غیر اسلامی طرزِ حکومت، نظامِ سرمایہ داری کے تحت سودی نظام یا ایسے کسی اور اہم پاکستان اور اسلام دشمن اقدامات کی مخالفت کی یا اس کو چیلنج کیا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ جیسی طاغوتی قوت نے بھی مولانا اور اس کی پارٹی کو کبھی مذہبی انتہا پسند اور دہشت گرد قرار نہیں دیا، اور مولانا کے محدود مذہبی اعتقادات اور نظریات کو خطر ناک محسوس نہیں کیا۔ لیکن 2018ء کے انتخابی نتیجے نے پوری صورت حال بدل کر رکھ دی۔ عملاً مولانا کو سیاسی میدان سے خارج کرکے دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک نہایت غیر حکیمانہ اور حقائق کو نظر انداز کر کے غیر دانشمندانہ اقدام تھا۔ اب جب مولانا کے لیے سیاست کے میدان میں کوئی گنجائش باقی نہ رہی، اور مولانا کو چاروں طرف سے مایوسی کے کالے بادل چھائے ہوئے نظر آئے، تو ان کی مدافعانہ اور اس کے بعد جارحانہ حسیات ایک دم جاگ پڑیں، اور وہ ایک خطر ناک بپھرے ہوئے بھوکے شیر کی طرح اپنی کچھار سے نکل آئے۔ اب ان کے پاس ہارنے اور کھونے کے لیے کچھ باقی نہیں بچا تھا۔ اسی وجہ سے ایک طرف تو اس نے اسٹیبلشمنٹ کو للکارا اور سارے ڈرامے کا بنیادی ڈائریکٹر اور ماسٹر مائنڈ قرار دے کر ان پر جعلی طریقے سے عمران کو انتخابات میں جتوانے کا الزام لگایا۔ دوسری طرف عمران اور تحریکِ انصاف میں شامل دین دشمن اور سیکولر ذہن کے افراد کو نشانہ بنایا۔
اگر حقیقت میں دیکھا جائے، تو مولانا کے الزامات میں وزن اور بیانئے میں جان ہے۔ تحریکِ انصا ف حکومت اور عمران خان کے خلاف مولانا نے جو سب سے بڑا اور سنگین الزام لگایا، وہ یہودی ایجنٹ کا اور مغربی طاغوتی ایجنڈے کو روبہ عمل لانے کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس الزام کو سچا اور قرار واقعی بنانے کا کام خود عمران خان اور اس کے حوالی موالیوں نے انجام دیا۔ انہوں نے ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دلائل تراشے۔ اسرائیل کے ساتھ درپردہ ’’بیک ڈور میٹنگز‘‘ کی افواہیں پھیلائی گئیں۔ قادیانیوں کے بارے میں ان کے نرم گوشے اور ایک قادیانی کو معاشی مشیر مقرر کرنے کے اقدام نے الزامات کو مزید تقویت دی۔ عمران خان کے معاشی فیصلوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پوری وزارت خزانہ کو آئی ایم ایف کی تحویل میں دینا، ٹیکسوں اور مختلف سروسز کے نرخوں میں اضافے کے لیے ان کی شرائط کو ماننا اور دیگر معاشی فیصلوں نے ملک میں مہنگائی اور گرانی کا ایک طوفان برپا کیا۔ ہر ماہ جب بجلی گیس اور دیگر بل گھروں میں آتے ہیں، تو ان میں اپنی طاقت اور استطاعت سے بڑھ کر رقم دیکھ کر عمرانی حکومت کے لیے کوسنے اور بد دعائیں گونجنے لگتی ہیں۔ صبح صبح لوگ کھانے پینے کی اشیا خریدنے کے لیے گھروں سے نکل کر جب دکانوں پر پہنچتے ہیں، تو قیمتیں سن کر نوازشریف کو دعائیں دینے لگتے ہیں اور عمران خان کی نااہل حکومت کو ان حالات کے لیے موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ محض چودہ ماہ کی حکومت میں عمران خان نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں اور وہ اس وقت عمران سے نجات اور خلاصی کے لیے ہر نئی مصیبت بھگتنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمارا تو المیہ ہی یہ ہے کہ جب ہم فوجی ڈکٹیٹر شپ اور ظلم و استبداد کا شکار ہوتے ہیں، تو جمہوریت اور انتخابات کے ذریعے منتخب سول حکومت کے لیے دعائیں، جلسے جلوس اور دھرنے دیتے ہیں، لیکن پھر جب سول نام نہاد منتخب حکومت کی کرپشن، بد عنوانی، بد امنی اور بیڈ گورننس کے نتائج سے دوچار ہوتے ہیں، تو پھر فوجی آمریت کی تمنائیں اور آرزوئیں کرنے لگتے ہیں۔ وہی فارسی شاعر ’’انوری‘‘ کی بات کہ ’’آسمان سے جو بلا بھی نازل ہوتی ہے۔ لوگوں سے انوری کے گھر کا پتا پوچھتی ہے۔‘‘ لیکن آسمان کی تمام بلاؤں کو تو ہمارے گھر پاکستان کا پتا کسی سے پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں۔ ہر بلا جو نازل ہوتی ہے، چاہے وہ عسکری ہو یا سول جمہوری بلا ہو، براہِ راست ہمارا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے، یا اسے توڑ کر اندر گھس آتی ہے۔
مولانا فضل الرحمان کی اس وقت مثال ایک ایسے بھوکے خطرناک اور خونخوار شیر کی ہے، جس کو لگڑ بگڑ نے اپنے شکار کے حصے سے محروم کر دیا ہو اور وہ غصے ، انتقام اور جذبات سے مشتعل ہو کر میدان کارزار میں کود پڑا ہو۔ اس کے ستائیسویں اکتوبر کے آزادی مارچ یا اسلام آباد کے لاک ڈاؤن نے ملک میں ایک ہلچل اور سیاسی افراتفری اور غیر یقینی صورت حال کو جنم دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالات اور ماحول مولانا کے دھرنے اور تحریک کے لیے انتہائی سازگار اور مساعد ہیں۔ نواز زرداری اور دیگر لادین اور سیکولر عناصر کو مولانا نے اس وقت ایک عجیب مخمصے اور الجھن کا شکار بنا رکھا ہے۔ اگر یہ عناصر مولانا کے ساتھ اپنی سیاسی بقا اور کرپشن کے جرائم سے محفوظ ہونے کے لیے شریک ہوتے ہیں، تو امریکہ کے کڑے تیوروں سے خوف زدہ ہو کر مولانا سے دھرنا ملتوی کرنے کی درخواست کرنے لگتے ہیں، اور اگر امریکہ کے خوف سے شرکت سے انکار کرتے ہیں، تو اس میں ان کو اپنی سیاسی موت اور کرپشن کے جرائم کے نتائج نظر آنے لگتے ہیں۔ مولانا نے نہ ان کے لئے ’’جائے رفتن‘‘ چھوڑی ہے نہ ’’پائے ماندن‘‘۔ اور مولانا نے ان کو بین السطور اور شاید واضح الفاظ میں یہ بھی جتا دیا ہے کہ تمہاری پارٹیاں تو محض چند سٹیج پر بیٹھنے والے لیڈروں پر مشتمل ہیں۔ تمہارے پاس تو سڑکوں پر پولیس کی لاٹھیاں اور آنسو گیس کا زہریلا دھواں برداشت کرنے والے کارکن نہیں۔ ایسے میں تم اگر میرے ساتھ سٹیج پر بیٹھنے سے انکار کرتے ہو، تو اس سے مجھے کیا فرق پڑے گا؟ مولانا کے پاس تو حقیقت میں مدارس، مساجد اور خانقاہوں میں پڑھنے والے ایسے مذہبی، سادہ مزاج اور ہر قسم کی گرمی سردی برداشت کرنے والے کارکن موجود ہیں، جو مولانا کی اصل قوت اور طاقت ہیں۔
اس کے علاوہ جب ہم اس وقت تک مولانا کے لب و لہجے، اندازِ بیاں اور باڈی لنگویج کو دیکھتے ہیں، تو مولانا کے لہجے میں جان بھی ہے، دلائل بھی مضبوط ہیں اور حکمتِ عملی بھی مؤثر ہے۔ 26 اکتوبر تک مولانا نے اس نام نہاد حکومتی ڈھانچے کو متزلزل کر رکھا ہے۔ سیاسی طور پر نابالغ وزرائے اعلیٰ اور دیگر وزیر مشیر اور خود عمران خان نے جو غیر ضروری اور اشتعال انگیز بیانات داغنے شروع کیے ہیں، اور جو دھمکیاں اور بھبکیاں دینی شروع کی ہیں، وہ بذاتِ خود ان کے خوف و ہراس اور کمزوری عیاں کرتی ہیں۔ اس وقت حکومت کی حیثیت خربوزے کی ہے اور مولانا کی حیثیت ایک تیز دھار والی چھر ی کی۔ چھری اگر خربوزے پر گرتی ہے، تب بھی خربوزے کا نقصان اور اگر خربوزہ چھری پر گرتا ہے، تو پھر بھی خربوزے کی جان کے لالے۔ اس کے علاوہ ملک میں مہنگائی، گرانی، امن و امان اور بیڈ گورننس نے عوام میں جو خوف، مایوسی اور اشتعال پیدا کیا ہے، وہ سارے حالات مولانا کے لیے ممد و معاون اور سازگار ہیں۔
اس وقت مولانا کی جرأت و عزیمت اور بہترین حکمت نے مولانا کے لیے مستقبل میں بھی سیاسی کامیابی و کامرانی کے امکانات روز افزوں اور روشن کر دیے ہیں۔ مستقبل کے سیٹ اَپ میں شاید مولانا مزید بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔
بہرحال یہ ہمارا ملک اور آخری جائے پناہ ہے۔ اس کی بقا، سالمیت، تحفظ اور ترقی ہمارے پیشِ نظر ہونی چاہیے، اور ہماری سیاست کا مرکز و محوربھی۔

…………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔