سوات میں 1980ء سے قائم ’’زرعی تحقیقاتی مرکز تختہ بند‘‘ اُس وقت کے گورنر فضلِ حق نے ملاکنڈ ڈویژن کے زمین داروں کو بہتر فصل حاصل کرنے کے لیے قائم کیا تھا۔ زرعی تحقیقاتی مرکز میں اِس وقت 200 سے زائد زرعی ماہرین کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے 36 ایکڑ زمین پر مختلف قسم کے پھل دار پودے، سبزیاں، اناج، چاول اور دیگر اجناس کی تجرباتی کاشت کی ہوتی ہے۔ اس تاریخی اور علاقے کے زمین داروں کی خوشحالی کی واحد امید پر صوبائی حکومت نے بغیر سوچے اور تحقیق کے پانی پھیر دیا۔ باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرکے زرعی تحقیقاتی مرکز کو زرعی کو یونی ورسٹی کو دینے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔
قارئین، بند کمرے میں یہ فیصلہ صوبائی وزیر محب اللہ نے جاری کیا ہے، جس میں نہ تو تحقیقاتی مرکز کے ڈائریکٹر کو اعتماد میں لیاگیا ہے اور نہ اس میں کام کرنے والے ان سیکڑوں ماہرین کی رائی لی گئی ہے، جو کہ کئی سالوں سے مختلف اجناس پر تحقیق کررہے ہیں، اور نت نئے اور فائدہ مند تخموں کو متعارف کرا رہے ہیں۔

بند کمرے میں زرعی تحقیقاتی سنٹر کو ختم کرنے والے صوبائی وزیر محب اللہ کی تصویر۔

زرعی تحقیقاتی مرکز کی معلومات کے مطابق پچھلے کئی دہائیوں سے پاکستان بھر میں بہترین پھلوں کی اقسام مختلف تحقیقاتی مراکز متعارف کرا رہے ہیں، جن میں اب تک اکیاون پھلوں کی اقسام پاکستان بھر میں متعارف کرائی جاچکی ہیں، جس کو عالمی سطح پر بھرپور پذیرائی مل چکی ہے۔ مذکورہ اکیاون نئی اقسام میں صرف دس پنجاب نے دی ہیں جب کہ باقی اکتالیس خیبر پختون خوا کا کارنامہ ہیں۔ اب فخر اور اعزاز کی بات یہ ہے کہ ذکر شدہ اکتالیس میں پچیس اقسام صرف تختہ بند زرعی تحقیقاتی مرکز نے دی ہیں۔
اس وقت ضلع سوات میں جہاں بھی آڑو کے بہترین باغات اور منافع بخش پھل نظر آتے ہیں، اس کا کریڈٹ بلا شبہ اسی زرعی تحقیقاتی مرکزکو جاتا ہے۔
خیبر پختون خوا حکومت اب ماضی کی طرح دوبارہ غلطی کر رہی ہے۔ 2008ئمیں حکومت نے یونیورسٹی آف سوات قائم کی۔ 2012ئمیں اس میں پڑھائی شروع ہوئی۔ ابتدا میں یونیورسٹی کے لیے جہانزیب کالج اور گرلز ڈگری کالج کی عمارات عارضی طور پر پانچ سالوں کے لیے دی گئیں، جس سے سیکڑوں طلبہ و طالبات متاثر ہوئے۔ یونیورسٹی آف سوات تاحال گیارہ سالوں میں اربوں روپے بجٹ ہونے کے باجود عمارت تعمیر نہ کرسکی، مگر سوات میں پہلے سے مضبوط اداروں جہانزیب کالج اور گرلز ڈگری کالج کو ہلا کر رکھ دیا۔ اب تک یونیورسٹی آف سوات کی مقبوضہ عمارات کی مرمت کی جا رہی ہے۔
اب حکومت خیبر پختون خوا کے وزیرِ محترم محب اللہ صاحب جو کہ خود بھی ایک زمین دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، زمین داروں کی دشمنی مول لے رہے ہیں۔ کیوں کہ زرعی تحقیقاتی مرکز ختم ہونے سے اُن ہزاروں زمین داروں کو ایک طرف نئی فصلوں اور پھلوں کا تخم نہیں ملے گا، تو دوسری طرف ہرسال یہ زمین دار اُن قیمتی مشوروں اور فصلوں کی بیماریوں کی روک تھام سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ علاقہ کے عوام اور زمین داروں نے باقاعدہ موصوف کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے، اور الزام لگایا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے کوئی نہ کوئی ذاتی مفاد یا فائدہ ہے۔ زمین داروں کا کہناہے کہ زرعی یونی ورسٹی کے لیے کسی اور جگہ زمین لے لی جائے، یا عمارت کو کرایہ پر اٹھا لیا جائے، مگر چار دہائیوں سے قائم زرعی تحقیقاتی مرکز کو نہ چھیڑا جائے۔ تاحال مرکز میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین شش وپنج میں مبتلا ہیں کہ حکومتی احکامات کے ساتھ کیا کیا جائے؟
خیبرپختون خوا کے وزیراعلیٰ محمود خان کا تعلق بھی سوات کے ایک زمین دار گھرانے سے ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ اس تحقیقاتی مرکز کی کتنی خدمات ہیں اور علاقہ کو اس سے کتنا فائدہ ہے؟ باقی ماندہ دنیا میں تحقیق کو توجہ دی جا رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا بھر سے وسائل جمع کرتے ہیں اور تحقیق ہی کی بنا پر ترقی یافتہ اور سپر پاور کہلاتے ہیں۔اس لیے خدارا ،ادھار کے لیے نقد کو قربان نہ کریں۔

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔