جب تحریر شائع ہوگی تب تک وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنا خطاب کرچکے ہوں گے۔ اس سے قبل عمران خان صدر ٹرمپ سے ملاقات کرچکے ہیں۔ شیڈول کے مطابق اہم فورم سے خطاب اور اہم شخصیات سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔ حکومت وزیر اعظم کی تقریر کو تاریخ ساز قرار دے رہی ہے۔1995ء میں بے نظیر بھٹو اور 2016ء میں نواز شریف کی برہان وانی شہید والی تقریر بھی تاریخی تھی، جس نے اقوامِ متحدہ سمت بھارت کے چھکے چھڑا دیے تھے۔
عمران خان نے بھی دورۂ امریکہ جانے سے قبل قوم سے بڑے بڑے دعوے کیے ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں ہر سال ماہِ ستمبر جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جنرل اسمبلی کے اجلاس کی اہمیت یہی ہے کہ سالانہ تقریب میں عالمی برداری اکٹھا ہوتی ہے۔ تقاریر کا مقابلہ ہوتا ہے اور جس ملک کی سفارت کاری زیادہ مؤثر ہوتی ہے، اس کے سربراہان اہم ممالک کے سربراہانِ مملکت سے سائڈ لائن ملاقاتیں بھی کرتے ہیں۔ اس سے ان ملکوں کے درمیان خارجی تعلقات میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ امورِ خارجہ کے حوالے سے جس ملک کی لابنگ بہتر ہوتی ہے، وہ اتنی ہی اہمیت حاصل کرتا ہے۔ گر اسے سادہ لفظوں میں کہا جائے کہ جو ملک اقتصادی طور پر اہمیت کا حامل ہوگا، اس پر سرمایہ داری نظام کے تحت اہم ممالک تجارتی مفادات کے لیے توجہ دیں گے۔ گو کہ جنرل اسمبلی کا کام سرانجام دینے کے لیے چھے کمیٹیاں بھی بنائی گئی ہیں، لیکن اجمالی جائزہ لیا جائے، تو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا کردار انتہائی محدود اور و غیر فعال نظر آتا ہے۔
جنرل اسمبلی کے فرائض میں تحفظاتی و سیاسی معاملات، تخفیفِ اسلحہ، تولیتی معاملات، سماجی، انسانی اور ثقافتی معاملات کی ذمے داری ہے۔ لیکن موجودہ عالمی سیاسی منظر نامے میں دیکھا جائے، تو اقوام متحدہ دنیا میں کہیں بھی چھوٹے بڑے بحرانوں کو حل کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتی۔ مشرقِ وسطی سمیت جنوبی ایشیا میں فوری حل طلب معاملات میں اقوامِ متحدہ کا کردار انتہائی مایوس کن ہے۔ بالخصوص مسلم اکثریتی ممالک میں خانہ جنگیوں کے خاتمے کے لیے اقوامِ متحدہ کے کردار کا نام و نشان تک نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر جنرل اسمبلی میں خطاب کریں گے، لیکن اسی اقوامِ متحدہ نے کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دینے کی قرارداد منظور کی تھی، جس پر 70 برس گزر جانے کے باوجود اقوامِ متحدہ اپنی ہی قرارداد پر عمل کرانے میں ناکام رہی۔ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری اپنے ادارے کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے کے بجائے پاکستان اور بھارت کو مشورہ دیتے ہیں کہ دونوں ممالک ثالثی کی پیش کش کو قبول کریں۔
پاکستان سب کچھ جانتے ہوئے بھی کسی بھی ملک کی ثالثی کی پیشکش پر ہامی بھر لیتا ہے، لیکن بھارت ہٹ دھرمی کی روش پر گامزن ہے بلکہ بھارت پہلے جموں و کشمیر کو دو ممالک کے درمیان تنازعہ قرار دیتا تھا۔ اب مودی سرکار نے تو یہ بھی کہنا چھوڑ دیا ہے بلکہ عالمی برادری کو یہ کہہ کر حقائق مسخ کرتا ہے کہ ’’مقبوضہ کشمیر کا معاملہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔ پاکستان سے آزاد کشمیر، گلگت اور بلتستان پر بات کی جا سکتی ہے۔‘‘
دوسری طرف پاکستان بھی پہلے استصوابِ رائے پر زور دیا کرتا تھا، لیکن اچانک مؤقف آرٹیکل 370 پر تھم گیا۔ جو اَب پرانا ہو کر کرفیو کے خاتمے پر اٹک چکا ہے۔ ہم کیوں اس مؤقف کو فراموش کرنا چاہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر تو بھارت کا حصہ ہی نہیں، بلکہ قابض ہے، تو کسی بھی آرٹیکل کی قانونی حیثیت پہلے تھی، اور نہ اب ہے۔ ہمارا پہلا اور آخری مؤقف یہی ہونا چاہیے کہ اصل بات تو کشمیریوں کا حقِ خوداداریت ہے۔ استصوابِ رائے ہے ۔ کشمیر کی آزادی ہے۔ یہ ہم کو کس راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ اب تو شملہ معاہدہ، قرار دادِ لاہور بھی ردی کی ٹوکری میں ہے، تو کس بات کا انتظار ہے؟
کشمیری عوام تو70 برسوں سے بھارتی جارحیت کا شکار ہیں، آٹھ لاکھ فوجی کوئی آج سے نہیں بلکہ ابتدا سے مسلط کیے گئے ہیں۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ بھارت نواز کشمیری رہنماؤں نے آرٹیکل 370 پر احتجاج ضرور کیا ہے، لیکن آزادی کے لیے مقبوضہ کشمیر سے ایسی کوئی تحریک نہیں چلائی جا رہی، جو مودی سرکار کو ہلاسکتی ہو۔ 80 لاکھ کشمیری گھر بیٹھے، کسی کا بھی انتظار کیوں کررہے ہیں؟ ضرورت تو اس اَمر کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام گھروں میں خود کو مقید نہ رکھیں۔ کرفیو کی پابندیوں کوغلامی کی زنجیروں کی طرح توڑ ڈالیں۔ مجھے کوئی غلط فہمی نہیں کہ جنرل اسمبلی میں خطاب کے بعد بھارت مقبوضہ کشمیر کو استصوابِ رائے کا حق دینے پر راضی ہوجائے گا، بلکہ مزید 700 برس بھی اس بات کا انتظار کیا جاتا رہے کہ بھارت شرافت سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق حقِ خودارادیت دے گا، تو یہ خام خیالی ہوگی۔ مَیں کم از کم احمقوں کی جنت میں نہیں رہنا چاہتا، کہ بھارت نواز کشمیری رہنما ہوں یا پاکستان حلیف کشمیری تنظیمیں، پتھر پھینک پھینک کر آزادی حاصل کرلیں گے۔
ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ (تقاریر، جلسے ، جلوس، مظاہرے اور دھرنے اپنی جگہ) مقبوضہ کشمیر کی آزادی صرف باتوں سے ممکن نہیں ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک ہوں، یا پھرغیر مسلم ممالک، بھارت کو ایک بڑی تجارتی منڈی سمجھتے ہیں۔ ان کے تجارتی مفادات اس سے وابستہ ہیں۔ اس لیے سب کچھ اپنے ہی نشریاتی اداروں سے دیکھنے کے باوجود عملی اقدامات کی توقع رکھنا خام خیالی ہے ۔
بھارتی آرمی چیف نے ایک بار پھر بھڑکیں ماری ہیں۔ پاکستان نے پھر تحمل و رواداری کا مظاہرہ کیا ہے ، لیکن یہ باتوں کے نہیں لاتوں کے بھوت ہیں۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم جلسوں میں آنسو بہا رہے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے کشمیری بھائیوں، بہنوں پر ہونے والے مظالم کا دکھ اور غم ہے، لیکن راقم سمجھتا ہے کہ رونے دھونے کے بجائے جذبۂ ایمانی سے کام لینا چاہیے۔ آزاد کشمیر کے عوام اور نوجوان نسل کو اپنی مادرِ وطن کی آزادی کے لیے تیار کرنے کی ضرورت کو اجاگر کریں۔ یاد رکھیں، اگر آزادی چاہتے ہیں، تو انہیں اپنی جنگ خود لڑنا ہوگی۔ انہیں ویت نام اور افغانستان جیسی جنگوں کی تاریخیں پڑھائیں کہ سپرپاؤر کہلانے والی قوتوں کا اپنی مادر وطن کی حفاظت کرنے والوں نے کیا حال کیا تھا۔ ویت نام اور افغانستان میں نہتے عوام نے اپنی آزادی کی جنگ لڑی ہے۔ سپر پاؤرز کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے۔ آپ بھی اٹھیں، اللہ تعالی غائبانہ مدد کرتا ہے اور ایسی مدد کرتا ہے کہ وہم گمان میں بھی ہوتا۔ یقین جانیں ثالثی کی بار بار پیشکش کرنے والا امریکہ اپنے مسئلے خودحل نہیں کرسکتا۔ وہ مقبوضہ کشمیر کے حقوق کہاں سے دلائے گا؟ بھارت سے علیحدگی پسند تنظیمیں، مذہبی دہشت گردی، آر ایس ایس کی انتہا پسندی سنبھالے نہیں جا رہی۔ اپنے عوام کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مرنے کے لیے فٹ پاتھ پر چھوڑنے والے سے اپنی معیشت و سیاسی حالات نہیں سنبھالے جا رہے، وہ کشمیری نوجوانوں کے طوفان کے سامنے ٹھہر نہ سکے گا۔

…………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔