سائنس دان کی ہر وقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ کائنات میں کوئی نئی چیز دریافت کی جائے، یا اپنی ذہنی صلاحیت اور تحقیق سے کوئی ایسی نئی مشین، آلہ یا کوئی دوائی ایجاد کی جائے جس سے تمام نوعِ انسانی کو زیادہ سے زیادہ فائدہ اور سہولت مل جائے، اور لوگوں کی زندگی آسان اور نتیجہ خیز ہو جائے۔
سائنس دان کی ایجاد کی ہوئی چیز اگر مناسب طریقے سے استعمال نہ کی جائے، تو انسان کے لیے سہولت کے بجائے مشکلات پیدا کرتی ہے، اور فائدہ کے بجائے نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہے۔ بعض اوقات تو تباہی بھی لاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت ہر نئی اور پرانی ایجاد کی ہوئی مشینری، آلہ اور دوا کے استعمال کو ریگولیٹ کرتی ہے۔ اگر ریگولیشن یا قانون اس ایجاد کے صحیح اور غلط استعمال سے فوا ئد اور نقصانات کا جائزہ لیے بغیر تیار کیا گیا ہو، اس طرح اگر لوگ بھی اس ایجاد کے صحیح اور غلط استعمال پر غور نہ کریں، تو بہت کارآمد چیز بیکار بن جاتی ہے۔
جرمن کے گاٹلیب ڈیملر نے جب 1885ء میں پہلی موٹرسائیکل ایجاد کی، تو اس کی نظرمیں انسانوں کے لیے سہولت اور آسانی مہیا کرنا مقصود تھا، اور وہ اپنے اس مقصد میں بہت حد تک کامیاب بھی رہا۔ کیوں کہ آج کل دنیا میں تقریباً دو سو ملین موٹرسائیکلیں استعمال میں ہیں۔ پاکستان اس وقت موٹرسائیکل کی خرید و فروخت کی چائینہ،انڈیا، ملائشیا اور ویت نام کے بعد دنیا میں پانچویں بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں روزانہ 7500 موٹرسائیکلیں کی خرید و فروخت ہوتی ہیں۔ چوں کہ تقریباً ہر متوسط طبقے کا فرد موٹر سائیکل خرید اور رکھ سکتا ہے، اس وجہ سے پاکستان میں زیادہ تر لوگ اپنی آمد و رفت کی ضرورت موٹرسائیکل سے پورا کرتے ہیں۔
گاٹلیب ڈیملر کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوتا ہوگا کہ مستقبل میں اس کی ایجاد کے غلط استعمال سے لوگ اور خاص کر نوجوان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، اور موٹر سائیکل آئس اور کلاشنکوف سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوگی۔
لوگوں نے اپنے جوان بیٹوں اور بھائیوں سے کچھ امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، لیکن وہ موٹر سائیکل کے غلط استعمال اور فلمی ہیروز کے سٹائل پر ڈرائیونگ کی نذر ہو جا تے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے صحت ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان میں 50 ہزار لوگ روڈ ایکسیڈنٹ میں مرجاتے ہیں۔ اس میں 50 فی صد موٹرسائیکل کی وجہ سے موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ ملاکنڈ ڈویژن میں ایک خاص سہولت کی وجہ سے یہ تعداد ڈبل ہوجاتی ہے۔ صرف عیدالفطر کے پہلے دن ضلع ملاکنڈ کے ایک سول ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں 421 افراد لائے گئے تھے جو کہ سارے موٹرسائیکل کی ڈرائیونگ کے دوران میں حادثات میں زخمی ہوئے تھے۔ صرف ہمارے ایک چھوٹے سے گاؤں جولگرام میں ایک سال کے دوران میں تقریباً چار خاندان موٹرسائیکل کی وجہ سے اُجڑ گئے۔
موٹربائیک کی وجہ سے اموات کی شرح زیادہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں اس کے دو پہیوں کی وجہ سے ڈرائیور کے لیے توازن برقرار رکھنے میں مشکلات، موبائل پر گفتگو کرنا یا پیچھے سواری کے ساتھ گپ مارنے سے سڑک سے توجہ ہٹ جانا، کراسنگ یا جنکشن میں اپنی موٹر بائیک کی چھوٹی سے جسامت کا فائدہ اُٹھانا، تیز رفتاری میں سڑک پر پڑی ہوئی معمولی چیز کے ساتھ ٹکر کھانے سے موٹر بائیک کا بے قابو ہو جانا، بڑی گاڑیوں کا موٹر بائیک کا چھوٹے ہونے کی وجہ سے سڑک پر نوٹس نہیں لینا، موٹر بائیک کی ڈرائیونگ کے لیے قانونی طور پر درکار چیزوں مثلاً ہیلمٹ، دستانے اور ہائی ویز وغیرہ کے استعمال سے پرہیز کرنا، ٹریفک کے قوانین کی پروا نہ کرنا اور ڈرائیونگ کے دوران میں مختلف قسم کے کرتب دکھانا شامل ہیں۔
بچے اور نوجوان ہمارے ملک کا مستقبل ہیں۔ ان کی زندگیوں کو بچانے اور سنوارنے کے لیے جتنا سرمایا لگایا جائے، اور جتنی محنت کی جائے کم ہے۔ موٹر سائیکل کی خرید و فروخت اور استعمال کو درست طریقہ سے ریگولیٹ نہ کرنا ملک کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہے، لیکن صرف حکومت کی طرف سے سخت ریگولیشن بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، جب تک عوام حکومت کے ساتھ مخلصانہ طور پر اس عمل میں شریک نہ ہوں۔
موٹرسائیکل کے حادثات کوکم کرنے کے لیے لوگوں کے فرائض میں انتہائی ناگزیر ضرورت کے تحت موٹر سائیکل خریدنا، سٹارٹ کرنے سے پہلے مکمل چیک اَپ کرنا، ہیلمٹ، دستانے اور موسم کی مناسبت سے موزوں کپڑے پہننا، ڈرائیونگ کے دوران میں فون کالز سننے سے پرہیز کرنا، مناسب اور محفوظ رفتار سے چلنا، ناموافق موسم میں موٹر بائیک کا استعمال نہ کرنا، نئے روڈ پر انتہائی ہوشیاری اور توجہ سے ڈرائیونگ کرنا، ٹریفک کے قوانین اور ریگولیشن کی پاس داری کرنا اور اپنے گرد و نواح پرنظر رکھنا شامل ہے۔ یہاں اس کے علاوہ ہر گاؤں یا یونین کونسل میں نوجوان سوشل ایکٹیوسٹ کو باضابطہ تنظیمیں بنانا چاہئیں، جو علاقے میں موٹر بایک کے صحیح استعمال کے فوائد اور بے احتیاطی کے نقصانات سے آگاہی پیدا کریں۔ اگر باضابطہ تنظیمیں ممکن نہ ہوں، تو عوامی مقامات میں سماجی کارکنوں اور علاقے کے مشران کو اس مسئلہ پر کچھ نہ کچھ بحث کرکے اس کارِخیر میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے ۔
حکومت پہلے موٹرسائیکل کی خرید و فروخت سے لے کر اس کے استعمال تک سب چیزوں کا احاطہ کرکے مناسب ریگولیشن بنائے، اور پھر اس پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنائے۔ بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ پر مکمل پابندی لگانی چاہیے۔ اس طرح لائسنس کے لوازمات مثلاً عمر، مہارت کے ٹیسٹ اور صحیح پتا کی تصدیق پر بالکل سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے ۔
حادثات تو ہر ملک میں اور ہر وقت ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا مکمل خاتمہ ناممکن ہے، لیکن اگر احتیاط سے کام لیا جائے، تونہ صرف حادثات کی شرح میں کمی کی جاسکتی ہے، بلکہ اس سستے ذریعۂ آمدورفت سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔
برسبیلِ تذکرہ، زرعی یونیورسٹی پشاور سے ایم فل مکمل کرنے کے بعد میں نے ہالینڈ کے پیسوں سے چلنے والے پاٹا پراجیکٹ بونیر میں بحیثیت فیلڈ انوسٹی گیٹر ملازمت اختیار کی۔ اس وقت پراجیکٹ نے علاقے کی فصلوں، زمین داروں اور پراجیکٹ کے پلاٹس کے متعلق معلومات اکٹھا کرنے کے لیے موٹر سائیکل دی۔ دو سال تک اُس موٹرسائیکل کے ذریعے درہ کڑاکڑ کی تنگ اور منحنی (زیگ زیگ) سڑک سے گزرتا، پھر پراجیکٹ کے پلاٹس جو دور دراز پہاڑی گاؤں مثلاً دوکڈہ اور قادر نگر میں واقع ہوتے، کے دورے کرتا تھا۔ اس کے بعد میں نے زرعی ترقیاتی بینک میں سترہ سال بحیثیت موبائل کریڈٹ آفیسر (ایم سی او) کام کیا ہے۔ موٹر سائیکل کے ذریعے روزانہ ایک خاص ٹوور پروگرام کے تحت چار پانچ گاؤں کا وزٹ کرتا تھا۔ اس کے علاوہ روزانہ درۂ ملاکنڈ موٹرسائیکل کے ذریعے پار کرکے درگئی جاتا، اور پھر واپس گھر آتا۔ لیکن خدا کے فضل وکرم اور مندرجہ بالا ذکر شدہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے سے موٹر سائیکل کے حادثے سے بچتا رہا ہوں۔ اس لیے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ احتیاط برتیے اور اس سستے ذریعۂ آمدورفت سے فائدہ اُٹھائیے۔

…………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔