ملکِ عظیم میں یہی دستور ہے کہ کمزور طبقہ ہمیشہ طاقتور کے پیروں تلے کچلا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ و تہذیب یافتہ ممالک میں جانوروں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے پیارے وطن میں حضرتِ انسان اپنے حقوق سے محروم ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق ہر ادارے کی اپنی قانونی حیثیت ہے، اور ہر کوئی اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرے گا، لیکن آج انتہائی افسوس ہوا جب ڈی پی اُو سوات نے اپنے ہی دفتر میں اس ملک کے ایک آزاد شہری و صحافی کی اچھی خاصی بے عزتی کر ڈالی۔ بعد میں وجہ پوچھنے پر پولیس آفیسر نے اُس کو صحافت سکھانے کی کوشش بھی کی۔ یوں بعد میں آپ صاحبان کو اپنے درشت لہجہ اور  سخت رویہ پر کوئی پچھتاوا بھی نہیں تھا۔
قارئین، ہوا کچھ یوں کہ سوات کے شکاری حضرات ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سوات کے دفتر کے سامنے پولیس کی جانب سے بلاوجہ تنگ کرنے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے کہ راقم کا وہاں سے گزر ہوا۔ مظاہرہ کی کورِج کرنے کے لیے رُکا۔ مظاہرین پولیس کے ناروا رویہ کے خلاف تفصیلات بتا رہے تھے کہ ہم عرصۂ دراز سے دریائے سوات کے کنارے کھیتوں میں پرندوں کا قانونی طور پر شکار کرتے ہیں جس کے لیے محکمۂ وائلڈ لائف سے لائسنس بھی بنوائے ہیں، اور ان کی فیس بھی بروقت ادا کرتے ہیں، لیکن پھر بھی پولیس آکر نہ صرف ہمیں تنگ کرتی ہے بلکہ گرفتار کرکے حوالات میں بند بھی کرتی ہے۔ ان کے بقول، ہمارے ڈھیر سارے ساتھیوں کو گرفتار کرکے بند بھی کیا گیا ہے، جو قانون کے بالکل برعکس ہے۔ ہم اگر پولیس سے سوال کریں، تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ڈی پی اُو صاحب کا حکم ہے۔
مظاہرہ کے دوران میں ڈی پی اُو سوات کے دفتر سے بلاوا آیا، اور ان کے ایک وفد کو اپنے دفتر بلوایا۔ راقم بھی ان کے ساتھ ہولیا۔ دفتر میں بیٹھ کر جب ان کی باری آئی، تو اس دوران میں راقم کو ایک ضروری کال موبائل پر آئی، جب راقم نے موبائل اُٹھایا، کال وصول بھی نہیں کی، نہ کوئی حرکت ہی کی۔ صرف موبائل ہاتھ میں لیا، تو ڈی پی اُو صاحب نے باآواز بلند کہا: ’’گیٹ آوٹ!‘‘ راقم حیرت سے ان کا منھ مبارک تکتا رہا۔ اس دوران میں ’’صاحب‘‘ نے قدرے جلال میں آکر دوبارہ کہا: ’’آئی سیڈ گیٹ آوٹ!‘‘ ساتھ ہی اپنے گنر کو پکارتے ہوئے راقم کو باہر نکالنے کا کہہ دیا۔ گنر بھی "صاحب” کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے راقم پر ٹوٹ پڑے۔ راقم چیختا رہا کہ ’’بھئی، مَیں کوئی ایرا غیرا نہیں، اس ملک کا ایک آزاد شہری ہوں اور صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہوں۔ نیز سوات پریس کلب کا ممبر ہوں!‘‘ مگر ’’صاحب‘‘ کہاں سننے والے تھے، اور یوں ایک باعزت شہری کی عزت کا جنازہ نکالا گیا۔
قارئین، راقم گذشتہ اٹھارا سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ اس لمبے عرصہ میں اپنے فرائضِ منصبی احسن طریقے سے نبھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مذکورہ عرصہ میں سوات کے بیشتر روزناموں اور قومی و صوبائی اخبارات میں خدمات بھی انجام دے چکا ہے۔ آج کل پختونخوا ریڈیو اور روزنامہ جہان پاکستان کے ساتھ کام بھی کر رہا ہے، لیکن ایک غیر مقامی آفیسر نے اس کی عزت کا لمحوں میں جنازہ نکال دیا۔ راقم کو ’’صاحب‘‘ سے کوئی گلہ نہیں، نہ اس تحریر میں کوئی ذاتی دلچسپی ہی ہے بلکہ یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ اس لیے رقم کیے جا رہے ہیں کہ دوسروں کی آواز ایوانوں تک پہنچانا اور علاقائی مسائل کے حل کے لیے انہیں اُجاگر کرنا، تو ہمارا معمول کا کام ہے۔ اگر ہمیں اس سے روکا جائے گا، تو یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔
قارئین کرام، مجھے کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ صحافت کتنا حساس شعبہ ہے، اور اس میں کتنی ذمہ داری اور صبر و استقامت سے کام لینا ہوتا ہے۔ راقم نے آج تک کسی کی بے عزتی نہیں کی اور نہ دوسروں کی برداشت ہوتی ہے۔ صرف اسی وجہ سے کہ عزت بڑی پیاری چیز ہے۔
قارئین، اُس وقت غصہ کو اس وجہ سے پی لیا کہ ہمارا واسطہ عام لوگوں کے ساتھ ہے اور ہم انہی لوگوں کو ہر اچھی بری خبر سے آگاہ رکھتے ہیں۔ ہم نے کٹھن حالات میں صحافت کی ہے۔ ان حالات میں جب ڈی پی اُو صاحب جیسے کتنے ہی ’’صاحب‘‘ اپنے قلعہ بند دفاتر یا گھروں میں رہا کرتے تھے۔ ہم نے آپریشن میں صحافت کی ہے، لیکن اس طرح کی بے عزتی یا ایسے سر پھرے آفیسر سے کبھی آمنا سامنا نہیں ہوا۔
آخر میں ان تمام کارکن صحافیوں سے گذارش ہے کہ ’’صاحب‘‘ کے دفتر میں جانے سے پہلے خود کو ان حالات کے لیے تیار رکھیں۔ اگر عزت پیاری ہو، تو ڈی پی اُو کے دفتر نہ جایا کریں۔ کیوں کہ صحافیوں کے پاس صرف عزت ہوتی ہے، اگر اس سے بھی ہاتھ دھولیے، تو پھر جینا مشکل سا ہوجاتا ہے۔ راقم کو جس طرح اپنی عزت پیاری ہے، اس طرح اپنے ساتھیوں کی بھی پیاری ہے۔
بس التجا ہوگی کہ صحافی حضرات اپنی عزت کا خیال رکھتے ہوئے موصوف کے دفتر بالکل نہ جائیں۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔