امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے افغان مفاہمتی عمل کو ڈیڈ کیے جانے والے فیصلے سے افغانستان میں کی جانے والی امن کی کوششوں کو یقینی طور پر نقصان پہنچا ہے۔سب سے بڑا نقصان باہمی اعتماد کی فضا کو ہوا ہے۔ عالمی طاقتوں کا یہ مسئلہ ہمیشہ رہا ہے کہ معاہدات کی پابندی کو خود سے مبرا سمجھتی ہیں۔ اس وقت سب سے بڑی مثال ایران، امریکہ کی ہے۔ سابق صدر بارک اوبامہ نے ایران کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔ اس معاہدے پر دیگر اہم ممالک نے بھی دستخط کیے تھے، لیکن صدر ٹرمپ نے اپنے ہی ملک کے صدر کے دستخط شدہ معاہدے کو ماننے سے انکار کردیا، اور یک طرفہ طور پر معاہدے کو منسوخ کردیا۔ اس حوالے سے امریکی صدر نے معاہدے میں شریک اُن اہم ممالک سے بھی مشاورت ضرورت نہیں سمجھی، جنہوں نے امریکہ، ایران ڈیل کو کامیاب بنایا تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے پہلے پابندیاں عائد کیں اورپھر یک طرفہ معاہدہ ختم کرنے کے بعد ایران پر دباؤ بڑھایا کہ وہ امریکہ کی منشا کے مطابق دوبارہ نیا معاہدہ کریں۔
کچھ ایسی صورتحال دوحہ مذاکرات میں بھی دیکھنے میں آئی کہ 18برس کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے ایک برس کی مسلسل محنت اور گفت و شنید کے بعد طے پانے والے ایک معاہدے کو ختم کردیا جو کہ دستخط کے مراحل میں داخل ہوچکا تھا، واضح نظر آرہا تھا کہ صدر ٹرمپ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کو برداشت نہیں کرسکے ۔ یہی کچھ ایران، امریکہ معاہدے میں ہوسکتا ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ایران کے تیزی سے تبدیل ہوتے حالات اور طاقت دیکھ کر خوف محسوس ہوا اور صدر ٹرمپ پر دباؤ ڈال کر معاہدہ ہی ختم کرا دیا۔
افغانستان میں صدر ٹرمپ کے ’’ذاتی‘‘ فیصلے کے مضمرات زیادہ ہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی سے مشاورت نہیں کی اور جو فیصلہ کیا انہوں نے اپنی مرضی سے کیا۔ امریکی صدر بزنس مائنڈڈ شخصیت ہیں۔ انہیں کاروباری اتار چڑھاؤ کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی ٹریک پر چلتے ہوئے یک دم مڑ جانا اور دنیا بھر کو حیران کردینا ان کا وتیرہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی اس عادت نے انہیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا یا ہے۔ یہ ڈیلنگ کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ دباؤ ڈالنے کے لیے مخالف کو زچ کرنے کی حد تک جانا ان کا خاص وتیرہ ہے۔ اس طرح سمجھتے ہیں کہ مخالف بدحواس ہوکر جلد بازی میں وہ کچھ کرسکتا ہے جو وہ عام حالات میں نہیں کرنا چاہتا۔
افغان امن مذاکرات کے 9 طویل مراحل کے دوران میں ٹرمپ کے طرح طرح کے بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ وہ چونکاتے، حیران کرتے اور خدشات میں ڈال کر پھر واپس پرانے رُخ پر چلنے لگتے ہیں ہے۔ ان کا وتیرہ ناکام یا کامیاب، مگر اس الٹ پھیر نے ان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ شمالی کوریا، ایران، چین اور بعض عرب ممالک کے ساتھ یہی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔
افغانستان میں 28 ستمبر کو صدارتی انتخابات متوقع سمجھے جا رہے ہیں، لیکن 17 صدارتی امیدواروں میں بے یقینی کی فضا برقرار ہے۔ 17 میں سے تقریباً 14 امیدوار شش وپنج کا شکار ہیں کہ عین وقت پر انتخابات ہوتے بھی ہیں کہ نہیں، جب کہ بعض امیدواروں نے واضح طور پر کہہ بھی دیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے مفاہمتی عمل کو ختم کرنے کے بعد افغانستان میں امن کی صورتحال مزید مخدوش ہوگی، اور انتخابات پُر امن ماحول میں ہونا تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ افغان صدارتی امیدواروں کا امن و امان کی صورتحال پر تحفظات کا اظہار جائز ہے۔ کیوں کہ امریکی صدر نے معاہدے منسوخ کرنے کے اعلان کے بعد ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ اب آگے وہ کیا کریں گے؟ امریکی صدر تو اپنے امریکی فوجیوں کو ہر صورت نکالنا چاہتے ہیں۔ کیا افغان طالبان کے ساتھ مزید کئی برسوں کی جنگ کے لیے اب مزید فوجی بھیجیں گے؟ یا پھر ایرک پرنس کے ساتھ چھے ہزار ٹارگٹ کلرز کو افغانستان میں آپریشن کرنے کا غیر علانیہ معاہدہ کرلیں گے، جس کے حوالے سے کئی مہینوں سے تواتر سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ امریکہ افغانستان میں ’’بلیک واٹر‘‘ کا آپشن بھی استعمال کرسکتا ہے۔ اس معاہدے میں بلیک واٹر اپنے جنگی سازو سامان کے ساتھ افغانستان میں افغان طالبان کے خلاف جنگ کرے گی، جس کا براہِ راست تعلق افغان سیکورٹی فورسز یا غیر ملکی افواج سے نہیں ہوگا۔ اس طرح امریکہ کو موجودہ حالات کے مقابلے میں کم مالی نقصان ہوگا اور امریکی فوجیوں کی جانیں بھی بچائی جاسکیں گی۔ بلیک واٹر کومتبادل فوج کے طور پر استعمال کرنے کی خبریں ذرائع ابلاغ میں تواتر سے آچکی ہیں۔ اس لیے اس بات کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ صدر ٹرمپ کیا سوچ رہے ہیں؟
اس وقت پاکستان کے حوالے سے یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ امریکہ اب پاکستان کو موردِ الزام نہیں ٹھہراسکتا۔ کیوں کہ پاکستان نے اپنے مینڈیٹ کے مطابق جو کردار ادا کیا، اس کے نتیجے میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان معاہدہ طے پاچکا تھا۔ نیز اس کے بعد دوسرے مرحلے میں بین لافغان مذاکرات اور جنگ بندی کے لیے افغانستان کے اسٹیک ہولڈر ایک صفحے پر آسکتے تھے، لیکن اس کے لیے امریکی صدر اور اسٹیبلشمنٹ نے موقعہ ہی نہیں دیا۔
یہ بھی قیاس آرائی ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ بین الافغان مذاکرات کی کامیابی سے خوفزدہ ہے کہ اگر افغانستان کے اسٹیک ہولڈر کے درمیان معاملات طے پا گئے، تو اس خطے میں رہنا کا مزید جواز مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔ اس لیے دوسرے مرحلے سے قبل ہی امریکی اسٹیبلشمنٹ نے دباؤ بڑھا کر صدر ٹرمپ سے ٹوئٹر پر مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کرادیا۔ گو کہ اس وقت امریکی انتظامیہ نے ایک رٹ لگا رکھی ہے کہ افغان طالبان، کابل انتظامیہ سے براہِ راست مذاکرات کریں، لیکن اہم امر یہ ہے کہ کابل انتظامیہ کے پاس تو خود کوئی اختیار اور عوامی مینڈیٹ ہے ہی نہیں۔ صدارتی انتخابات کے لیے بھی امریکہ، فنڈ فراہم کررہا ہے۔ کابل انتظامیہ کو تنخواہیں بھی امریکہ ہی دے رہا ہے۔ جنگی اخراجات سمیت تمام وسائل امریکہ فراہم کر رہا ہے، تو کابل انتظامیہ کس بنیاد پر افغان طالبان سے براہِ راست مذاکرات کرنا چاہتی ہے؟
دوسری طرف کابل انتظامیہ کی آئینی حیثیت چند دنوں کی مہمان ہے۔ اس کے پاس عوامی مینڈیٹ ختم ہوچکا ہے۔ اشرف غنی دو بار ملتوی کیے جانے والے انتخابات کے بعد افغان سپریم کورٹ کے حکم پر صدر ہیں۔ غیر متوقع انتخابات میں کامیاب ہوتے بھی ہیں یا نہیں، اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے کابل انتظامیہ کا افغان طالبان سے براہِ راست مذاکرات کا مطالبہ ناقابلِ فہم نظر آتا ہے، جس طرح امن و امان کی صورتحال کو جواز بنا کر مذاکرات ختم کیے گئے ہیں، ان حالات کو دیکھتے ہوئے افغانستان کے صدارتی انتخابات کس طرح پُرتشدد ماحول کے بغیر ہوسکتے ہیں؟ اس پر امریکہ اور کابل انتظامیہ افغان عوام کو کس طرح یقین دہانی کراسکتے ہیں؟ تاہم معاہدے پر دستخط کے بعد 23 ستمبرکو بین الافغان مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی سمیت افغانستان کے اکثریتی اسٹیک ہولڈر مستقل امن حل نکال سکتے تھے۔ جس میں زیادہ گنجائش نکل سکتی تھی کہ بین الافغان مذاکرات میں افغانستان کے اکثریتی اسٹیک ہولڈر جنگ بندی اور عبوری حکومت کے ابتدائی ڈھانچے پر رضامند ہوجاتے، جس کے نتیجے میں صدر اور چیف ایگزیکٹو کے ساتھ کابینہ بھی فارغ ہوجاتی اورعلما، محققین اور افغان ذمہ دار اہلکار مل کر معاملات طے کرسکتے تھے۔ امریکہ کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام کرتے اور افغانستان کا نظام و انصرام کیا ہوگا؟ یہ بھی خود افغان عوام ہی کرتے۔ افغان طالبان کو بھی اسی روڈ میپ پر آنا ہوتا۔ اس لیے صدر ٹرمپ کا فیصلہ عجلت اور غیر منطقی و زمینی حقائق کے برخلاف سمجھا جا رہا ہے۔
قارئین، مناسب یہی ہے کہ ٹرمپ مسودے پر دستخط کریں اور بین الافغان مذاکرات میں افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام پر چھوڑدیں۔

……………………………………………………………….