اہلِ پاکستان نے غم کی اس گھڑی میں کشمیریوں سے غیر معمولی یکجہتی کا اظہار کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان سمیت حکومت، عسکری لیڈر شپ اور عوام نے کشمیریوں پر گزرنے والی قیامت کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس سانجھے دکھ کو بانٹنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ گذشتہ جمعہ کو آزاد جموں و کشمیر کے جھنڈے تھام کر لازوال محبت اور اخوت کے جذبے کو ایک بار پھر دہرایا۔ آزادی اور مزاحمت کی کہانی کی طرح کشمیریوں سے یکجہتی کی داستان بھی دوچار برس کی بات نہیں۔ نوے برس قبل لاہور میں علامہ محمد اقبال نے کشمیر کمیٹی کی صدارت سنبھالی اور مسلمانانِ ہند کو کشمیریوں کی مدد کے لیے اُبھارا۔ احراریوں کے لشکروں کے لشکر کشمیر کی طرف مارچ کرنے لگے۔ سر ظفراللہ خان نے سری نگر جاکر مفت مقدمات لڑے۔ 1946ء میں قائداعظم نے لگ بھگ ساری گرمیاں سری نگر میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے کیں۔ گذشتہ 70 برس کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، جہاں کشمیریوں کی مدد اور ان کی آزادی کے لیے اہلِ پاکستان نے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے عزم کا اظہار نہ کیا ہو۔ 90ء کی دہائی میں بے نظیر بھٹو نے مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنے کے لیے بھرپور جارحانہ مہم چلائی۔ پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کی کوشش بہت کی، لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھی۔
قارئین، آصف علی زرداری اور نواز شریف کے دور میں مسئلہ کشمیر حکومت کی ترجیح نہ بن سکا۔ وہ داخلی مسائل خاص طور پر دہشت گردی کا بری طرح شکار رہے۔ سیاسی اور عسکری لیڈر شپ کی باہمی چپقلش نے بھی کشمیر کو پس منظر میں دھکیلا۔ وزیراعظم عمران خان بھی مسئلہ کشمیر پر جارحانہ خارجہ پالیسی کے حامی نہ تھے۔ انہوں نے بھارت کو پیشکش کی کہ وہ ایک قدم اُٹھائے گا، تو پاکستان امن کے لیے دو قدم آگے آئے گا۔ پاکستان کے خلاف الیکشن مہم میں سخت لب و لہجہ اختیار کرنے اور جنگی جنون بھڑکانے کے باوجود بھی ہمارے وزیراعظم کو امید تھی کہ الیکشن کے بعد حالات میں جوہری بدلاؤ آئے گا۔ افسوس! بھارتی حکومت نے ان کے پُرخلوص پیغام کو درخورِ اعتنا نہ جانا۔ ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا۔ چار اگست کشمیر کی تاریخ کا نائن الیون ہے۔ نہ صرف اس واقعے نے مسئلہ کشمیر کی جہت ہی بدل ڈالی، بلکہ پاک بھارت تعلقات کو ایک نہایت ہی خطرناک رُخ پر ڈال دیا۔ 90ء کی دہائی سے کشمیر عملاً ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ 1953ء میں شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے بعد سے مقبوضہ کشمیر پر عملاً بھارت کی مرکزی حکومت کا ہی راج رہا ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر کشمیر میں پتا بھی نہیں ہلتا۔ سری نگر راج بھاون کی راہ داریوں میں جاری کٹھ پتلی تماشا ان ہی کی مرضی سے برپا ہوتا ہے۔ 370 کی بھارتی آئین میں موجودگی ایک علامتی سی تھی۔
نہ جانے بی جے پی کو بیٹھے بیٹھے کیا سوجھی کہ اس نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو مرکزی حکومت کے ماتحت ایک علاقہ قرار دے کر اور اس کی وحدت ختم کرکے ایک نیا ’’پنڈورا باکس‘‘ کھول دیا۔ مقصد کشمیریوں کا ناک رگڑانا تھا کہ آپ آزادی مانگتے تھے، ہم نے آپ کی رہی سہی آزادی بھی ختم کردی۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ بی جے پی کی حکومت نے تقسیمِ ہند کے زخم ہرے کر دیے۔ ہندو اور مسلمان کے عدسے سے مسائل کو 70 برس بعد ایک بار پھر دیکھا جانے لگا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہر سیاسی مسئلہ کو "ہندوتوا” کے آئینہ سے دیکھا۔ چناں چہ وہی عمران خان جنہیں نوجوت سنگھ سدھو فرشتے کہتے تھے۔ بقول سدھو: "73 برس بعد جسے قدرت نے پاکستان اور بھارت کی دوستی کرانے بھیجا۔” اب کشمیریوں کے سفیر بن چکے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ چند ہفتوں میں نہ صرف عالمی سطح پر بہت مؤثر طریقے سے ہمدردی کی ایک لہر پیدا کرانے میں کردار ادا کیا بلکہ کامیاب سفارت کاری کے ذریعے کشمیریوں کی تحریک سے دہشت گردی کا لیبل بھی اتار پھینکا۔ گذشتہ چار ہفتوں سے اس طالب علم کو درجنوں سیمیناروں اور ٹی وی مذاکروں میں شرکت کا موقعہ ملا۔ مقررین اور سامعین میں اکثر کو محمد بن قاسم کو پکارتے سنا جو ساتویں صدی میں سندھ کی ایک مظلوم عورت کی پکار پر عراق کے قلب سے آندھی اور طوفان کی طرح اٹھا اور فاتحِ سندھ قرار پایا۔ سندھ کو باب الاسلام قرار دیا گیا۔
اکیسویں صدی میں ایسا خواب دیکھنا دیوانے کی بڑ کہلاتا ہے۔ 1965ء کے دوسرے دن امریکی سفیر کی صدر ایوب سے ملاقات کا چشم دید واقعہ الطاف گوہر نے بڑے دکھ سے لکھا۔ والٹر پیڑک نے ایوانِ صدر میں داخل ہوتے ہی کندھے اچکائے اورکھردرے لہجے میں صدرایوب سے کہا: "بھارت نے آپ کو بری طرح گلے سے دبوچ رکھا ہے۔” کارگل کی جنگ کے پس پردہ مذاکرات کی کہانی بھی بہت ناخوشگوار لیکن سبق آموز ہے۔ عالمی ثالثوں بالخصوص امریکہ نے پاکستان کی ایک نہ سنی۔ صدر بل کلنٹن کے ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ سڑوپ ٹالبوٹ نے اپنی کتاب "Engaging India” میں لکھا: "وزیراعظم نوازشریف نے صدر کلنٹن سے کہا کہ وہ کارگل کا بحران حل کرنے میں تعاون کریں گے۔ اگر بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی ایک ٹائم فریم میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کا وعدہ کریں۔ امریکہ آپ کو نیوکلیئر بلیک میل کی اجازت نہیں دے گا۔ نوازشریف یہ جواب سن کر ششدر رہ گئے۔” کارل انڈر فرتھ نے بھی اس ملاقات کا احوال قلمبند کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے بھارت کو بتا دیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں پاکستان کو لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی سے سیاسی فائدہ اٹھانے نہیں دیں گے۔
یاد رکھیں، آزادی کی تحریکیں طویل اور صبر آزما جدوجہد کا نام ہیں۔ اللہ کرے میرا تجزیہ غلط ہو، لیکن میرا گمان ہے کہ اگلے دس بیس برس تک بی جے پی کے موجودہ مائنڈ سیٹ کے ساتھ کشمکش کرتے گزر جائیں گے۔ انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت کا جن بوتل سے نکل آئے، تو اسے قابو کرنے کے لیے کئی عشرے درکار ہوتے ہیں۔
یہ قدم قدم بلائیں یہ سوادِ کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری

……………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔