جب سے ریاست وجود میں آئی ہے، اس وقت سے ریاستی اداروں میں کام کرنے والوں نے اپنے حقوق اور مراعات کے لیے یونین یا انجمن بنانے شروع کیے ہیں۔ سب سے پہلے اُنیسویں صدی میں برطانیہ، یورپ اور امریکہ میں ٹریڈ یونینز بنانے کی ابتدا ہوئی۔ بڑی جدوجہد اور مصیبتیں جھیلنے کے بعد کام کرنے والے لوگ اس میں کامیاب ہوگئے کہ جمہوری اور انسانی حقوق پر یقین رکھنے والے تمام ممالک نے یونینز بنانے کے لیے قوانین وضع کیے اوراپنے اپنے آئین میں اس کی ضمانت دی۔ آئینِ پاکستان کی شق 17 بھی نہ صرف کام کرنے والوں کو یونینز یا انجمن بنانے کی اجازت دیتی ہے، بلکہ ورکرز اور ملازمین کے مسائل اور تنازعات کو اجتماعی سودے بازی یعنی ’’کلیکٹیو بارگیننگ‘‘ کے ذریعے حل کرانے کو بنیادی حقوق کا درجہ دیتی ہے۔
پاکستان میں ’’لیبر لا‘‘ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کام کرنے والے خواہ وہ سرکاری ملازمین ہوں، یا پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے ، قانونی طور پر یونینزیا انجمن بنا سکتے ہیں۔ یونین اپنے ممبرز کے مسائل حل کے لیے اداروں کے منتظمین کے ساتھ مذاکرات کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔ آئینِ پاکستان کی شق 17 کو بنیاد بناکر قومی اسمبلی نے ’’انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ‘‘ پاس کیا ہے جو یونینز کو تشکیل دینے سے لے کر آجر اور آجیر کے تعلقات کو ’’ریگولیٹ‘‘ کر تا ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں نے اپنے اپنے فلور پر ’’انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ‘‘ پاس کیا ہے اور اس کی بنیاد پر ہر سرکاری محکمے،پرائیویٹ کمپنیوں اور کارخانوں کے ملازمین نے یونینز بنائے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ کی شق 3 کے ’’سب سیکشن 3‘‘میں یونینز کے ممبرز کو اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔جب ایک محکمے میں ایک سے زیادہ یونینز ہوں، تو پھر جمہوری اصولوں کے تحت اس محکمہ میں کابینہ کے لیے انتخابات کیے جاتے ہیں، اور منتخب کابینہ محکمہ کے ہر ملازم کے لیے بارگیننگ ایجنٹ کے طور پر کام کرتی ہے۔
خیبر پختون خوا گورنمنٹ کا سب سے بڑا محکمہ تعلیم کا ہے جس میں دوسرے ملازمین کے علاوہ ایک لاکھ، بیالیس ہزار، چھے سو بتیس اساتذہ کام کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے اتنے زیادہ لوگوں کے مسائل بھی زیادہ ہوں گے جس کے لیے ایک منتخب کابینہ کی موجودگی ناگزیر ہے، تاکہ وہ اساتذہ کے مسائل اور تنازعات کو محکمۂ تعلیم کے مجاز آفیسرز کے ساتھ گفت و شنید کے ذریعے حل کرا سکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے دورِ حکومت سے لے کر 1995ء تک خیبر پختونخوا میں اساتذہ کے انتخابات باقاعدگی کے ساتھ منعقد ہوتے تھے۔ اس دوران میں اساتذہ کے کم مسائل ہوتے تھے اور تعلیم کا معیار بھی بہتر تھا، لیکن جب سے ’’آل ٹیچرز ایسوسی ایشن‘‘ کے انتخابات پر پابندی لگی ہے۔ اس دن سے اساتذہ اور محکمۂ تعلیم کے مسائل میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اساتذہ کے مسلسل مطالبے پر کے پی کی حکومت نے اس بات کا احساس کرتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی اور 26 ستمبر کو صوبے بھر میں تمام اساتذہ کے ایسوسی ایشن کے انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ مختلف تنظیموں نے صوبہ، ضلع اور تحصیل کی سطح پر الیکشن کے لیے امیدوارکھڑے کیے۔ ہر امیدوار نے صوبہ، ضلع اور تحصیل کے لیے پچاس ہزار، بیس ہزار اور دس ہزار روپے بالترتیب جمع کیے اورایک اندازے کے مطابق دو کروڑ سے زیادہ رقم خیبر پختونخوا کے محکمۂ تعلیم نے انتخابی اخراجات کے بہانے اکھٹی کرلی۔ ان امیدواروں اور ان کے حمایتی اساتذہ نے اپنے محدود وسائل سے پیسے نکال کر الیکشن مہم پر بھی خاصی رقم خرچ کی۔ پیسوں کے علاوہ ا میدوار اساتذہ نے اپنا قیمتی وقت ساتھی اساتذہ اور استانیوں سے ووٹ مانگنے میں بھی صرف کیا۔ یہ رقم اس امید پر خرچ کی گئی کہ الیکشن جیتنے کے بعد اساتذہ کرام کے مسائل کا باعزت اور پُرامن حل تلاش کیا جائے گا۔ اپنا قیمتی وقت اس لیے لگایا گیا کہ کیبنٹ ممبر بننے کے بعد مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے اساتذہ کو باعزت طور پر نکال لیا جائے گا اور اس طرح اساتذہ تعلیم کی ترقی اور معیار میں مؤثر کردار ادا کرسکیں گے، لیکن اچانک کے پی کی کابینہ نے اساتذہ کے انتخابات کو کوئی وجہ بتائے بغیر ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔
پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں جو بھی حکومت آئی ہے، اس نے اپنے مخالفین کی آواز کو دبانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے ہیں، لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے منشور اور کنٹینر پر انصافی دعوؤں کے برخلاف اس سلسلے میں زیادہ پھرتی دکھائی ہے۔ پاکستان کے ہر شہری کی یہ اوّلین خواہش ہے کہ کوئی ایسی مخلص اور عوام دوست حکومت آجائے، جو ان تمام سیاست دانوں، اعلیٰ افسران، ججوں، جرنیلوں اور کارخانہ داروں کا بلا امتیاز احتساب کرے جس نے قوم کا پیسہ لوٹاہو، لیکن کوئی یہ نہیں چاہتا کہ بغیر ثبوت کے کسی کو جیل کے اندر کیا جائے یا کسٹڈی میں رکھے۔ کیوں کہ یہ آئینِ پاکستان اور مروجہ انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ سیاسی رہنماؤں پر کیسز بنانے کے علاوہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ٹریڈ یونینز، میڈیا، این جی اوز، انسانی حقوق اور سماجی تنظیموں میں کام کرنے والوں کی آواز کو جس طرح بے دردی سے دبایا، اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ ایسے لوگوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا جو صبح سے شام تک قوم کے بچوں کو پڑھاتے ہیں، ان کو اچھی تربیت اور اخلاق سکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اساتذہ، عام انتخابات ہوں، مردم شماری ہو یاپولیوکی ڈیوٹی، اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر قوم کی خدمت کرتے ہیں۔ فوج اور پولیس کے بعد اساتذہ کرام نے دہشت گردی کی اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانی دی ہے۔ پچیس سال بعد ان بے چاروں نے بڑی کوشش کے بعد حکومت کو انتخابات کے لیے راضی کیا۔ یہ بے ضرر،کمزور اور مجبور طبقہ انتخابات کا انعقاد اس لیے چاہتا ہے، تاکہ ان کے منتخب نمائندگان ہوں جو ان کے مسائل اور تنازعات محکمۂ تعلیم کے ساتھ ’’ٹیکل‘‘ کریں اور ان کو قوم کے بچوں کو پڑھانے کے لیے زیادہ وقت مل سکے، لیکن پی ٹی آئی کی حکومت سے یہ معمولی اور انتہائی اہم کام بھی ہضم نہ ہو سکا، اور کنٹینر پر بڑی بڑی بڑھکیں مارنے والے ٹائیگر نے مجبور اور کمزور استاد سے ڈر کر اس کا الیکشن ملتوی کر دیا۔ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف تمام اساتذہ احتجاج کر رہے ہیں، جس سے بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔
استاد نہ سیاست دان ہے جو محلاتی سازشوں کا حصہ بن کر پی ٹی آئی کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرے گا، نہ بیوروکریٹ ہے جو امورِ حکومت چلانے میں رکاوٹیں کھڑی کر ے گا، نہ کارخانہ دار ہے جو اشیائے خور و نوش کو ذخیرہ کرکے حکومت کے لیے معاشی مشکلات پیدا کرے گا۔ وہ غریب تو اپنے مسائل کے حل کے لیے انتخابات چاہتا ہے۔
میری ناقص رائے یہ ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو ’’کے پی‘‘ کی حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرکے الیکشن کے لیے تاریخ کا اعلان کرنا چاہیے اور اساتذہ میں موجودہ بے چینی کو فوری طور پر ختم کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنے فرائض منصبی پر توجہ دیں اور بچوں کی تعلیم و تربیت متاثر نہ ہو۔

…………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔