(خصوصی رپورٹ) فلک بوس پہاڑوں، بل کھاتی ندیوں اور میٹھے جھرنوں کی سرزمین سوات کو پھلوں اور فصلوں کا گھر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں مختلف قسم کے پھلوں کی پیداوار ہوتی ہے، جن میں آڑو اور سیب سرِ فہرست ہیں۔ لیکن چند سالوں سے اہلِ سوات نے یہاں انار کے باغات لگانے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ یہاں جس انار کی پیدوار ہوتی ہے اس کو ’’انارِصالح‘‘ کہا جاتا ہے۔ یخ موسم اور معتدل آب و ہوا کی وجہ سے سوات کا انار سائز میں بڑا، نسبتاً زیادہ میٹھا اور زیادہ رس بھرا ہوتا ہے، جس کی وجہ اس کو ملک بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔
انارِ صالح کے حوالہ سے مقامی زمین داروں کا کہنا ہے کہ اس نے افغانستان کے شہر قندھار کے مشہورِ زمانہ انار کو بھی اپنے منفرد ذائقہ اور رس کی بدولت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس کا سائز، مٹھاس اور رس قندہار کے انار سے زیادہ ہے۔
سوات میں زیادہ تر باغات آڑو اور سیب کے ہیں، لیکن زیادہ منافع اور کم محنت کی وجہ سے اب زمین دارانار کے باغات کی طرف راغب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ سوات کے انار کو زیادہ تر پنجاب اور سندھ کی منڈیوں میں بھیجا جاتا ہے۔ اس حوالہ سے نویکلے ابوہا کے ایک زمین دار محمد پرویز خان کے بقول، ’’ایک پیٹی میں آٹھ کلوگرام تک انار آتا ہے، جو منڈیوں میں 18 سو تا 2 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ اس کی قیمت اڑھائی سو روپے فی کلو بنتی ہے۔ منڈی کے بعد دکانوں میں سواتی انار فی کلو پانچ سو سے ساڑھے پانچ سو روپے میں فروخت ہوتا ہے ۔‘‘
محمد پرویز خان نے تین کنال میں ایک باغ لگایا ہے۔ ان کے بقول، ایک درخت سے دوسرے درخت کا فاصلہ 9 تا 10 فٹ ہوتا ہے۔ ’’ایک درخت سالانہ 100 تا 120 کلو اَنار پیدا کرتا ہے۔انارمنافع بخش پیداوار ہے۔ اس لئے زمین داروں کو چاہیے کہ وہ دیگر پھل دار درختوں کے ساتھ انار بھی لگائیں۔‘‘
پاکستان کے باقی علاقوں میں گرم موسم کی وجہ سے پیداوار جون جولائی کے مہینے تک ختم ہوجاتی ہے جب کہ سوات کا انار ماہِ اگست کے پہلے دنوں میں تیار ہو کر مارکیٹ میں آجاتا ہے اور مہینے کے آخر تک رہتا ہے۔ اس لیے اگست کے بعد کے مہینوں میں ملک بھر میں جو انار خریدا جاتا ہے، وہ سوات کا انارِ صالح ہوتا ہے۔ اس حوالہ سے زمین داروں کا کہنا ہے کہ آڑو، سیب یا دیگر پھلوں کے درخت لگانے کے بعد پانچ چھے سال پیدوار حاصل کرنے کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے،جب کہ انار کا درخت ایک سال بعد پیدوار دینے کا عمل شروع کرتا ہے۔ ہر آنے والے سال میں اس کی پیداوار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے زمین داروں کو بھی زیادہ منافع ملتا ہے۔