1971ء میں قائد اعظم کا پاکستان دولخت ہوا ۔ اندراگاندھی کا وہ جملہ کہ ’’ہم نے آج دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں دفن کیا‘‘ ابھی تک شعور رکھنے والوں کے ذہنوں میں گونج رہا ہے۔ ایسا کیوں ہوا اور کون ذمہ دار رہا، کون سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ہم زمین کے ایک ٹکڑے سے نہیں بلکہ ایک قوم سے محروم ہوگئے۔ اس سانحے کی وجوہات سے تو قوم کو بے خبر رکھا گیا، لیکن ایک کام فوراً اس کے بعد یہ ہوا کہ پاکستان میں سینیٹ کا وجود عمل میں لایا گیا، جس کی صرف ایک وجہ تھی کہ صوبائی سطح پر مزید محرومیاں پیدا نہ ہوں۔ ہر صوبے کو یکساں نمائندگی دی گئی اور یہ امید باندھی گئی کہ پارلیمنٹ کا یہ حصہ بھی ملک کی ترقی اور قانون سازی میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ آپ اگر پاکستان کی تاریخ، ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد پڑھیں، تو آپ کو لگ پتا جائے گا کہ اس ایوان کو اس کی حقیقی اہمیت کبھی نہیں ملی ۔
آپ ایک حیران کن حقیقت ملاحظہ کیجیے کہ اس ایوان کے ارکان کو صوبائی نمائندے منتخب کرتے ہیں جس کا بھرپور فائدہ یہ منتخب نمائندے اٹھاتے ہیں۔ یہ لوگ نہ تو عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، اور نہ کبھی عوام کے سامنے آکر ان فنڈز اور سہولیات کا جواب دیتے ہیں، جو ان کو ملتی رہتی ہیں۔
پارلیمنٹ کا یہ حصہ ہمیشہ پیسا لٹانے والوں کے لیے توجہ کا مرکز رہا۔ ایک ایک ووٹ کروڑوں میں بک جاتا ہے، جب بھی اس ایوان کے لیے نمائندے منتخب کرنے کا وقت آتا ہے۔ اس ایوان کی وجہ سے نئی نئی سازشی تھیوریاں جنم لیتی ہیں اور اس ایوان ہی کی وجہ سے کرپشن کا زور اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس سے کبھی کسی نے کچھ نہیں سیکھا ۔ ہم نے اس تاریخ میں عجیب عجیب سانحے دیکھے اور ایسے ایسے نئے نام سنے کہ جن کا ترقی یافتہ ممالک کے عوام کو پتا تک نہیں ہوتا۔
جن قوموں کے نام کے ساتھ ترقی لازمی آتی ہے، وہاں نوجوانوں کو تحقیقی مقالوں سے لے کر پروفیشنل زندگی کی اونچ نیچ تک زندگی کے نت نئے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ وہاں معاشرتی زندگی سے لے کر سیاسی زندگی تک ہر چیز کا ایک سلیقہ ہوتا ہے اور جب کبھی وہاں یہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ اب قدیم طور طریقے فائدہ مند نہیں رہے، تو جدیدیت کا لبادہ ہر شعبے کو اوڑھا دیا جاتا ہے، لیکن کبھی قوم کو غیر ضروری چیزوں میں نہیں الجھایا جاتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں جن لوگوں کے ہاتھوں میں عنانِ اقتدار ہوتی ہے، وہ اعلیٰ فہم رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ہم اگر دیکھیں، تو آج کل سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہماری سیاست کے ان خراب داؤ پیچ پر باقاعدہ لیکچرز دیے جاتے ہیں ۔
اب دیکھیے ناں، آج سے چند سال پہلے کیا ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کا لفظ کبھی بحث و مباحثہ میں آیا ہے؟ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں موجود نمائندے پورے پانچ سال صرف ایک ہی بات پر اڑے رہتے ہیں کہ ہم اور ہماری پارٹی کا مؤقف ٹھیک ہے۔ ہم اگر جدید اصطلاحات میں ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ ہی پر نظر ڈالیں، تو یہی ایک اصطلاح ہی کافی ہے جس سے ہمیں اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی کہ ہمارے اربابِ اختیار نے پچھلے سات عشروں میں کیا سیکھا؟
2018ء میں جب سینیٹ کے انتخابات ہو رہے تھے، تو کھلے عام کروڑوں میں ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ ہوئی اور کسی نے بھی اس نئے نقصان پر سوچنا گوارا تک نہیں کیا۔
اس بار سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ڈھونگ رچایا گیا۔ اپوزیشن میں موجود تمام پارٹیاں مطمئن تھیں کہ ان کی تحریک کامیاب ہوجائے گی، کیوں کہ ان کو اپنے سینیٹرز جو سامنے نظر آرہے تھے، پر یقین تھا، لیکن سب کچھ ان کے توقعات کے برعکس ہوا۔ اس تحریکِ عدم اعتماد پر کتنے پیسے لگے، اوربالفرض اگر چیئرمین کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو بھی جاتی، تو کون سے خوشحالی آجاتی؟ اس بار مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام، پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی اس تحریک کو لانے میں سرگرم پارٹیاں تھیں، جن کی وجہ سے عوام کا اعتماد اور بھی متزلزل ہوگیا۔ بکا کون اور کس نے دیے پیسے؟ یہ معلوم کرنا اب ان کی ذمہ داری ہے۔ یہ ہماری سیاسی پارٹیوں کی سب سے بڑی ناکامی ہے کہ ایسے ایسے لوگوں کو سینیٹ میں بھیجا جاتا ہے جن کے سامنے پھر نظریہ کوئی معنی نہیں رکھتا، بلکہ پیسا ہی ان کا مذہب بن جاتا ہے۔ یہ آوازیں نفسیاتی طور پر کافی نقصان دیتی ہیں کہ اتنے بک گئے اور اس کی سے وجہ سے بہت سارے نقصانات ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اداروں پر عوام کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر غیر ضروری چیزوں میں مصروف ہیں۔ سیاسی میچورٹی کو حاصل کرنے کی کوشش شروع بھی نہیں ہوئی۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب آج سے ایک سال پہلے جب اپوزیشن میں تھے، تو بہت ساری ایسی چیزیں تھیں جن کی وہ کھلے عام مخالفت کیا کرتے تھے، لیکن جب خود اقتدار میں آگئے، تو وہی چیزیں اور بھی نمو پانے لگیں۔ جب تک سیاسی پارٹیوں کے اندر تربیت کا کوئی پروگرام شروع نہیں کیا جاتا، تب تک تبدیلی کی توقع رکھنا فضول ہے۔
ہمارے سیاست دانوں نے بس ایک ہی کام سیکھا ہے کہ تاریخ کے تلخ تجربات کو بار بار دہرایا جائے۔ غلطیاں ان سے ہوجاتی ہیں، بک یہ جاتے ہیں، پالیسیاں ان کی ناکام ہوجاتی ہیں، اور آخر میں پورا گند ’’آئی ایس آئی‘‘ پر ڈال دیتے ہیں۔ اس روش کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے۔ ہر چیز میں ملک کی سیکورٹی ایجنسیوں کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سیاست دان نامی طبقہ جب کچھ سیکھ جائے گا اور جب ان کے اندر حقیقت میں اس ملک کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوجائے گا، تو پھر ان کی یہ غلط فہمی بھی ختم ہو جائے گی کہ پسِ پردہ کوئی اور ان کے خلاف لگا ہوا ہے۔
اپوزیشن نے اپنی جنگ کا آغاز سینیٹ سے کیا جس میں ان کو ناکامی ہوئی، اب لگ ایسا رہا ہے کہ ان میں واضح اختلافات سامنے آنا شروع ہوجائیں گے اور ان کے ترکش کا یہ آخری تیر جو حدف پر نہ لگا، ان کے درمیان ایک ایسی غلط فہمی چھوڑ گیا جس کا ختم ہونا ایک دو مہینے کی بات بالکل نہیں۔

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔