آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سوشل میڈیا ہی نے لوگوں کو "اَن سوشل” یعنی "غیر سماجی” بنا دیا ہے۔ ایک ہی کمرے میں بیٹھے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بات تک نہیں کرتے، جب کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہزاروں میل دور موجود لوگوں سے ایسی گپ شپ ہانکتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ نوجوان طبقہ تو بطورِ خاص سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی وجہ سے مختلف جسمانی اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہے۔ بنا سوچے سمجھے سوشل میڈیا کے نت نئے "ایپلی کیشنز” استعمال کرتے ہوئے اپنی ذاتی زندگی کو انجانے میں دنیا پر آشکارا کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت خطرناک فیشن ہے، جو تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔
قارئین، پڑوسی ملک چین کی بدولت سستے ترین سمارٹ فونز کی فروانی اور انٹرنیٹ کمپنیوں کی وجہ سے سستے "انٹرنیٹ پیکیجز” نے معاملہ کچھ زیادہ ہی آسان کر دیا ہے۔ اس لیے بہت آسانی سے لوگوں کی ذاتی زندگی تک رسائی ممکن ہوگئی ہے۔ وہ بھی سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی اپنی مرضی سے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ کسی کو یہ ادراک ہی نہیں کہ میں اپنے گندے کپڑے خود برسرِ بازار دھو رہا ہوں۔
آج کل اس فیشن میں ایک ایپلی کیشن "فیس ایپ” کا استعمال زور و شور سے جاری ہے۔ ہر کوئی اس ایپ کے ذریعے اپنی شناخت تبدیل کرکے مختلف سوشل سائٹوں پر اپنی تبدیل شدہ تصویر آپ لوڈ کرتا ہے۔ یاد رہے "فیس ایپ” نام کا یہ ایپلی کیشن ایک روسی کمپنی نے بنایا ہے۔ یہ سنہ 2017ء سے زیرِ استعمال ہے۔ اِمسال اس کا استعمال مگر کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے۔ اب ہر کوئی اپنا چہرہ اس ایپ کے ذریعے تبدیل کرتا نظر آتا ہے۔
قارئین، "فیس ایپ” کا کوئی بھی صارف اپنا چہرہ مختلف نوعیت کا بنا سکتا ہے یعنی ایک نوجوان باآسانی اس ایپ کے ذریعے ساٹھ ستّر سالہ بوڑھا بن سکتا ہے۔ اس طرح ایک ساٹھ ستّر سالہ بوڑھا پلک جھپکتے میں بیس پچیس سالہ نوجوان بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ فسردہ چہرہ خوش، اور خوش، فسردہ بن سکتا ہے۔ ایک ٹھیک ٹھاک مرد اپنی صنف تبدیل کرکے دوشیزہ یہاں تک کہ ہیجڑا بھی بن سکتا ہے۔ یہ سب کچھ انتہائی آسان ہوتا ہے۔ بس "فیس ایپ” میں اپنی تصویر ڈال کر آپ اپنے لیے جو روپ پسند کرتے ہیں، دوسرے ہی لمحے وہی روپ اسکرین پر نمودار ہوجاتا ہے۔
قارئین، المیہ مگر یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دیگر ایپلیکشنز کی طرح "فیس ایپ” کی بھی ایک "پرائیویسی پالیسی” ہے جس کو "اُو کے” کیے بغیر کوئی بھی اس ایپ کو استعمال نہیں کرسکتا، مگر اس پالیسی کو "اُو کے” کرتے ہوئے کوئی اس کو پڑھتا بھی نہیں، جس میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بات بھی درج ہے کہ "ایپ بنانے والوں کو یہ اختیار ہوگا کہ جب تک چاہے آپ کی تصاویر کو اپنے پاس محفوظ رکھا اور جب، جہاں اور جس طرح چاہے اس کو استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔”
قارئین، کچھ اسی طرح کی باتیں تمام سوشل میڈیائی ایپلی کیشنز کی پرائیوسی پالیسی میں درج ہوتی ہیں۔ صارفین میں سے بہت ہی کم مگر ایسے ہیں جنہوں نے ابھی تک کسی ایپلی کیشن کی پرائیوسی پالیسی پڑھی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ پھر کسی نہ کسی شکل میں صارفین کا ڈیٹا "لیک” ہوجاتا ہے۔ یہ عمل ڈھیر ساروں کے لیے بعد میں باعثِ ندامت بنتا ہے۔ اکثر اسی وجہ سے نوبت اپنی زندگی کے خاتمہ تک آتی ہے۔
حال ہی میں فیس بُک کے مالک کو امریکہ میں اس بات پر جرمانہ کیا گیا تھا کہ انہوں نے صارفین کی معلومات لیک کی تھی۔ چند مہینے پیشتر "وٹس ایپ” کے ڈیٹا کو اسرائیلی ہیکروں کی جانب سے ہیک کرکے حاصل کیا گیا تھا، جس پر وٹس ایپ کو معذرت کرنا پڑی، مگر ایسی معذرت کا کیا فائیدہ جب آپ نے کسی کی ذاتی معلومات کسی اور کو تھما دی ہو؟
اسی طرح "فیس ایپ” پر بھی شدید تنقید کی جا رہی ہے، خاص کر کچھ امریکائی کمپنیوں اور لوگوں نے امریکی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف بی آئی سے مطالبہ کیا ہے کہ فیس ایپ کی آڑ میں جاسوسی کی خاطر پھیلائے جانے والے جال کی تحقیقات کی جائیں۔
قارئین، آج کی نشست کا مطلب صرف اتنا ہے کہ کسی بھی سوشل میڈیائی ایپ کو اس وقت تک استعمال میں نہ لایا جائے، جب تک آپ اُس کی پرائیوسی پالیسی کو پڑھ کر سمجھ نہیں لیتے۔ کیوں کہ انجانے میں کسی کو اپنی ذاتی معلومات دینا کسی بھی وقت آپ کے لیے باعثِ ندامت عمل بن سکتا ہے۔ بعد کے پچھتانے سے بہتر ہے کہ انسان وقت پر خود کو بچا کے رکھے، جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ کیوں کہ سوشل میڈیائی ایپس کے بغیر زندگی اچھی گزر سکتی ہے، مگر عزت کے بغیر زندگی عذاب بن جاتی ہے۔
قارئین، احتیاط کریں اور اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں عذاب مت بنائیں۔ پھر بھی لیکن اگر خود نمائی کا شوق ہے، تو کرتے رہیں۔ بس خوش رہیں، جہاں بھی رہیں۔

………………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔