پاکستان میں سیاست یقینی طور پر زیرِ نظر تحریر کے عنوان پہ صادق اترتی ہے۔ کیوں کہ ہمارے ہاں سیاست اور اخلاقیات کا دور دور تک بھی واسطہ نہیں ہے۔ مزید پستی کی علامت یہ ہے کہ یہاں جس کا جو کام ہے، وہ کر نہیں رہا۔ جس کا جہاں دا لگ رہا ہے وہ لگا رہا ہے۔ یہ حقیقت پسِ پشت ڈالی جا رہی ہے کہ اس سے ملک کو کتنا نقصان ہوگا اور ہمارا پاکستان اس تمام کشمکش سے آگے بڑھے گا، یا اس کی ترقی کی رفتار مزید سست ہو جائے گی؟ تبدیلی سرکار کا بیانیہ بھی موجودہ حالات میں پٹ رہا ہے، اور ایسے عام سے فیصلے ہو رہے ہیں جن پہ کبھی تنقید کی جاتی تھی۔ نہ مہنگائی روکنے کا دعویٰ عملی کام بن سکا، نہ شہ خرچیاں کم ہو سکیں، نہ عوام تک بنیادی حقوق پہنچ سکے، نہ انصاف کی راہداریوں میں دنوں میں فیصلے ہوپا رہے، نہ باہر سے پاکستانی بھاگے بھاگے واپس چلے آئے، نہ دنیا سے لوگ یہاں نوکریاں ڈھونڈنے آئے، نہ بجلی کی قیمتیں کم ہوئیں، نہ پٹرول کم قیمت پہ دستیاب ہے، نہ گورنر ہاؤسز اور وزیراعظم ہاؤس میں قائم ہونے والی درسگاہوں میں تعلیمی سال شروع ہو پایا ہے۔ دعوؤں کی ایک لمبی لائن تھی جس کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ اگر ان میں سے پچاس فیصد بھی مکمل ہوگئے، تو ملک کی حالت سنور جائے گی۔ہمارے دعوے بس دعوے ہی رہتے ہیں اور ہم عوام سے صبر و حوصلہ کی توقع ہی کرتے ہیں۔
نواز شریف جیل میں اپنے کردہ یا ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے یہ حکومت کے لیے بظاہر ٹیسٹ کیس تھا، لیکن اب گلے کی ہڈی بنتا جا رہا ہے کہ جسے نگلا جاسکتا ہے، نہ اُگلا ہی جاسکتا ہے۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ اس کیس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، لیکن اس کیس سے جڑے معروضی حالات خطرناک صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ مریم نواز کھل کے میدان میں آ چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو کے جہاں پر جلتے ہیں، وہاں مریم نواز ایک قدم آگے بڑھا چکی ہیں۔ ویڈیو معاملہ شاید ترپ کا آخری پتا ہے، جو ایک جوے کی مانند ہے۔ مقاصد حاصل بھی ہو سکتے ہیں، اور الٹا بلا گلے بھی پڑ سکتی ہے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ باقی نہیں بچا۔ میڈیا اس محلے کی خالہ کا کردار ادا کر رہا ہے، جو ایک کان سے سن کر دوسرے کان تک پہنچانے کی ماہر ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی کہتی ہے کہ ـ’’کسی نوں دسنا نہیں۔‘‘ ویڈیو معاملہ بظاہر پیچیدہ مسئلہ لگتا ہے، لیکن یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نیا تو نہیں۔
دھندا پورے عروج پہ ہے۔ کسی کا زوال شروع ہونے کو ہے، اور کسی کی گڈی بلند ہو رہی ہے۔ لیکن پاکستانی سیاست تنزلی کی طرف جا رہی ہے۔ نوجوان نسل بڑی حسرت سے سوچا کرتی تھی کہ وہ میاں محمد نواز شریف اور بینظیر بھٹو جو میوزیکل چیئر کھیل رہے تھے، وہ نجانے کیسی تھی، لیکن موجودہ دور کی سیاست سے یقینی طور پہ ان کی یہ حسرت پوری ہو گئی ہوگی۔ کیوں کہ پچھلے کچھ عرصے میں ایک ایسی سیاسی نسل پروان چڑھی ہے جو گالم گلوچ میں جدیدیت لے کر آئی ہے۔ٹوئیٹر اور فیس بک نے معاملات کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ اب حالات نوے کی دہائی سے بھی بدتر ہیں۔ آپ کسی بھی شخصیت کو منتخب کیجیے۔ اس کے خلاف چند پوسٹس بنائیے اور آپ کے پاس کچھ سر پھرے نوجوان ہونے ضروری ہیں، جو ہر لمحہ ٹک ٹک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، اور بس لمحوں میں وائرل۔
پارلیمان کی صورتحال کا جائزہ لے لیجیے۔ سینٹ الیکشن میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ الیکشن سے پہلے اور بعد میں کیسے کیسے معرکے سر نہیں کیے گئے۔ الیکشن کے بعد سے اب تک کس کس طرح مخالفین نے غلیظ نعروں کے ساتھ ایک دوسرے کا گریباں چاک نہیں کیا۔ حیرت ہوتی ہے جب وہ لوگ جنہیں ہم منتخب کر کے بھیجتے ہیں، اور وہ گالم گلوچ اپنا وطیرہ بنا لیتے ہیں۔ ہمیشہ سے سیاسی نصاب میں لکھا جاتا رہا ہے، پڑھا جاتا رہا ہے، پڑھایا جاتا رہا ہے کہ حکومت کا کام تنقید سہنا ہے۔ لیکن اب حالات شاید مختلف ہو چکے ہیں، اور سیاسی لغت میں سے لفظ ’’صبر‘‘ بھی منہا کر دیا گیا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے طوفانِ بدتمیزی کے جواب میں کارکردگی کو جواب بنانے کی بجائے حکومتی وزرا و مشیر اپوزیشن سے بھی سخت اور ایسا بے ہودہ لہجہ اپناتے ہیں کہ الاماں و الحفیظ!
دوسری جانب اپنے اوپر لگے الزامات کو غلط ثابت کرنے کے بجائے نہ جانے کس کس دور کی ویڈیوز نکال باہر کی جا رہی ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد ہی ایسی ویڈیوز آنا شروع ہو جائیں کہ جن پہ واضح لکھا ہوا ہو کہ ’’صرف بالغوں کے لیے‘‘ کیوں کہ جو روش پاکستانی سیاست دانوں نے اپنا رکھی ہے، اسے دیکھتے ہوئے کچھ بھی ممکن ہے۔ آپ نے مشیر بننا ہے، تو اس کی خاطر بدتمیز ہونا اولین شرط ہے۔ آپ نے اپوزیشن کی صفوں میں اپنا نام ہر اول دستے میں لکھوانا ہے، تو غیر اخلاقی گفتگو میں مہارت ہونا لازمی ہے۔ کہاں جائیں، کس سے کہیں کہ ہمارے سیاست دانوں کو تھوڑی سی تمیز سکھا دیجیے۔ ہمارے سیاست دانوں کے کان ایسے کھینچ لیجیے کہ یہ کچھ سبق سیکھ سکیں۔
تعمیری رویے پاکستان کی سیاست اپنا پائی ہے نہ مستقبلِ قریب میں ایسی کوئی امید دکھائی دیتی ہے۔ اب ڈیلی میل کی مارکیٹ میں آنے والی نئی سٹوری ایک مزید برننگ ایشو ہے، جو ذاتیات کے بخیے ادھیڑنے کے لیے میسر آ گئی ہے۔ حیرت انگیز اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ سونے پہ سہاگا برطانوی ادارے کی طرف سے اس خبر کی تردید ثابت ہوا۔ غیر ملکی اخبارات میں خبریں کیسے لگتی ہیں، کیسے لگوائی جاتی ہیں، کون لگواتا ہے اور لگوانے کے لیے کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں؟ یہ ہم جیسا ناچیز طالب علم بھلا کیسے جانے، یہ تو کوئی مہان صحافی و لکھاری ہی بتا سکتا ہے۔ ہاں، مگر اتنا کہنا تو بنتا ہے کہ صحافت کی تعلیم میں ایک چیز ہم پڑھتے آئے ہیں کہ لوگوں کے ذہنوں میں کچھ ڈالنے کے لیے اس کی مسلسل گردان لازمی ہے۔ تو آج کل حال اسی گردان والا ہے۔ اب کون اپنی گردان کامیابی سے لوگوں کے ذہنوں پر نقش کر پائے گا مستقبلِ قریب میں واضح ہو جائے گا۔

…………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔