پاکستانی سیاسی جماعتوں کے رہنما کسی کے اس قول پر کہ ’’جھوٹ اس تواتر اور بے شرمی سے بولو کہ لوگوں کو اُس پر سچ کاگمان ہوجائے۔‘‘ پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اور عمائدین اس تواتر اور بے شرمی سے جھوٹ بول رہے ہیں کہ عام آدمی کو سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ جھوٹ اور سچ کو آپس میں ایسے ملا دیا جاتا ہے کہ اس میں سچ ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوجاتا ہے۔
آمدم برسرِ مطلب، گذشتہ دنوں ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ آڈیو اور ویڈیو جاری کی۔ ان کے مطابق اس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے اعتراف کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں محمدنواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھے، لیکن انہیں بلیک مل کرکے نواز شریف کو سزا دلوائی گئی۔ نواز شریف کو سزا سنانے کے بعدمجھے میرا ضمیر ملامت کر رہا ہے، اور مجھے ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ رات کو نیند نہیں آتی اور اس کا اِزالہ کرنا چاہتا ہوں۔
ناصر بٹ اور جج صاحب کی پرانی جان پہچان تھی۔ اس لیے جج صاحب نے ناصر بٹ کو گھر بلایا اور یہ انٹرویو دیا۔ اس حوالہ سے مریم نواز کا کہنا ہے کہ سزا دینے والا خود بول پڑا ہے۔ پریس کانفرنس میں مریم نواز نے مزید کہا کہ ’’مَیں نواز شریف کو مرسی نہیں بننے دوں گی۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو مفروضوں پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جے آئی ٹی نے بیرونی ملک جائیدادوں کی جانچ پڑتال نہیں کی۔‘‘
قارئین، مبینہ ویڈیو جاری کرنا ایک جذباتی بیٹی کا ذاتی فیصلہ تو نہیں ہوسکتا، جو اپنے باپ کو بچانے کے لیے یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہوگئی ہو۔ مریم نواز کی پریس کانفرنس میں مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور احسن اقبال سمیت دیگر مسلم لیگی رہنما بھی شامل تھے، جو اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی حکمتی عملی کے تحت کیا گیا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سزادینا بدترین بے انصافی ہے۔
دوسرے ہی روز احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی طرف سے ایک پریس ریلز جاری ہوئی کہ مریم نواز کی ویڈیو جھوٹی ہے۔ انہوں نے مجھ پر سنگین الزامات لگائے ہیں۔ نواز شریف کا فیصلہ بغیر کسی دباؤ کے کیا ہے۔ نواز شریف کی طرف سے مجھے رشوت کی پیشکش کی گئی تھی، اور دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔ ناصر بٹ میرے بھائی کا پرانا شناسا ہے۔ ویڈیو حقائق کے بر عکس ہے جس کے ذریعے میری ذات، ادارے اور خاندان کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘
احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کا مؤقف آنے سے پہلے وکلا کی طر ف سے ردِعمل سامنے آیا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ نے کہا کہ اس طرح کی ویڈیو ججوں پر دباؤ ڈالنے کے برابر ہے۔ اسی ویڈیو پر وزیر اعظم عمران کا کہنا ہے کہ عدلیہ خود تحقیقات کرے، کیوں کہ وہ آزاد اور خود مختار ہے۔
قارئین، مریم نواز کی مبینہ ویڈیو نے ملک کی سیاست میں ایک اور تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مریم نواز کو ایک سال بعدکیوں کرمعلوم ہوا کہ نواز شریف کا کیس کمزور کرنے کے لیے ان کے پاس ڈھیر سارے شواہد موجود ہیں۔ مریم نواز کے سینے میں یہ راز آج تک کیوں دفن رہا اور آج یہ دور کی کوڑی کیوں کر لائی گئی کہ نواز شریف کو بنا ثبوت کے سزا ہوئی ہے؟
لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ مریم نواز کو مذکورہ ویڈیو پریس کانفرنس کی بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کرنا چاہیے تھی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ یہ سب کچھ اس لیے کر رہی ہے کہ ماضی میں عدالتوں کو دباؤ میں لا کر فیصلے کرانے کی مثالیں موجود ہیں۔ مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر کا فیصلہ جمہوریت اور اس قوم کے لیے عذاب کا سبب بنا رہا۔ بھٹو کو نواب احمد خان قتل کیس میں دی گئی سزا کو سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے دباؤ کا نتیجہ قرار دیا (یوں وہ قوم کے سامنے بھٹو کو پھانسی کے حوالے سے ایک سچ توبول گئے)۔ صدر غلام اسحاق خان نے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کا آئین کے آرٹیکل 58-2B کے تحت خاتمہ کیا، تو سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب نے لاہور ہائی کورٹ اور نواز شریف نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی۔ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے سپیڈی ٹرائل کے ذریعے چند دن کی سماعت کے بعد حکومت بحال کر دی۔ 1990ء میں جسٹس ملک قیوم نے ایک فون کال پر بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو سزا سنائی۔ بعد میں فون ریکارڈنگ کی ٹیپ منظرِ عام پر آگئی اور جسٹس عبدالقیوم کو استعفا دینا پڑا۔ مسلم لیگ نون نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا، تو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو جان کے لالے پڑگئے۔
سقراط یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ سچ پر ہیں، زہر کا پیالہ نواش کرتے ہیں کہ ان کے دل میں عدالت کا احترام تھا۔ اور ایک ہم ہیں کہ ذاتی اور سیاسی مفادات کی رسہ کشی میں اپنے ہی آئینی اداروں کی رہی سہی ساکھ کوبھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کا سربراہ اور قائدین ہر بار اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے آئینی عدالتوں کی بجائے عوامی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ میں زیرِ بحث رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں عام آدمی سچ اور جھوٹ میں تمیز نہیں کرسکتا، مگر سیاسی لوگ فائدہ میں رہتے ہیں۔

…………………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔