قارئین، وہ وقت دور نہیں کہ مینگورہ شہر کے باسی اپنے مردوں کو دفنانے کے لیے قیمتاً قبریں خریدنے نکلیں گے، مگر انہیں قطعۂ زمین نہیں ملے گا۔ موجودہ مقبرے "قبرستان مافیا” کے نرغے میں ہیں، جن میں پہلے ہی سے مزید قبروں کی گنجائش موجود نہیں۔ اب وہ وقت بھی آگیا ہے کہ لواحقین پرانی قبریں خالی کرکے اکثر رات گئے اُن میں اپنے مردوں کو دفن کرتے ہیں۔ مینگورہ شہر اور اطراف کے کئی مقبرے یا تو بھر گئے ہیں یا پھر قبضہ مافیا نے ختم کرکے وہاں بڑے بڑے پلازے اور مارکیٹیں قائم کرلی ہیں۔ اس بدترین صورتحال میں حفاظت اور مقبروں کی حدود و قیود کے نگران اداروں کاکوئی اتا پتا معلوم نہیں۔ الیکشن سے پہلے سوات کی "بائیس کروڑ آبادی” کے خیرخواہ نمائندے اور ممبر صوبائی اسمبلی نے اپنے انتخابی جلسوں کے دوران میں مینگورہ شہر کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ انہوں نے شہر کے قریب مقبرے کے لیے بہترین زمین کا انتخاب کیا ہے اور زمین خریدنے کے لیے تمام تر انتظامات ہوچکے ہیں، جب کہ زمین پر سیکشن فور بھی لگا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد 2018ء کا الیکشن ہوا۔ اپنے مذکورہ وعدوں کی بدولت ایم پی اے صاحب مینگورہ شہر کے عوام سے خوب ووٹ لے کر الیکشن میں "بھاری مینڈیٹ” سے کامیاب بھی ہوئے۔ یوں موصوف صوبائی اسمبلی کے حکومتی بنچوں میں سے ایک پر دوبارہ براجمان ہوگئے، لیکن بدقسمتی سے ایم پی اے صاحب کی حکومت میں کچھ عرصہ بعد اُس زمین سے سیکشن فور اس لیے اُٹھا لیا گیا کہ مذکورہ زمین مقبرے کے لیے موزوں ہی نہیں تھی۔ جب کہ ذکر شدہ زمین مینگورہ شہر کے قریب ترین اور نرم مٹی کی حامل واحد زمین ہے جو کچھ عرصہ بعد تعمیرات کی زد میں آجائے گی۔ نتیجتاً مینگورہ شہر کے باسی اپنے پیاروں کو شہر سے دور کسی دوسری جگہ دفنانے پر مجبور ہوجائیں گے۔

مینگورہ شہر کا مقبرہ "حاجی بابا” کا ایک منظر۔ (فوٹو: ماجد ایف مسعود)

قارئین، بھلا ہو مینگورہ شہر کے خیرخواہ ملک بہرام خان (تاتا) کا، جنہوں نے اپنی ٹی ایم اے کی چیئرمین شپ میں ڈھیر سارے کام کیے۔ ان کے متعدد کاموں میں ایک لائقِ تحسین گنبد میرہ کا مقبرہ ہے، جس کی ضرورت اس وقت ملک صاحب نے محسوس کی اور آج تک اس مقبرے میں مینگورہ شہر کے باسیوں نے ہزاروں کی تعداد میں اپنے پیاروں کو دفنایا ہوا ہے۔ اس وجہ سے ملک بہرام خان ہر دلعزیز شخصیت مانے جاتے ہیں۔ ان کے بعد یہ کمی کسی نے بھی محسوس نہیں کی۔ دوسری طرف حاجی بابا مقبرہ میں لوگ پرانی اور لاوارث قبروں کو خالی کرکے اپنے پیاروں کو دفنا رہے ہیں۔ یہاں سوات میں چوں کہ انتظامیہ جتنا کمزور کوئی اور ادارہ نہیں، اس لیے بدقسمتی سے قبرستان کی زمین کو "قبضہ مافیا” ایک منصوبے کے تحت قبضہ کرنے میں مصروف ہے۔
میری یادداشت کے مطابق حاجی بابا مقبرہ کافی وسیع تھا، آج وہ کتنا سکڑ کر رہ گیا ہے۔ اس طرح وتکے شاہدرہ مقبرہ اور دیگر مقبروں کی بھی حالت سب کے سامنے ہے۔ اب تو قبضہ مافیا کی طرف سے باقاعدہ خاردار تار لگا دیے جاتے ہیں اور چند دن بعد وہ زمین ہڑپ لی جاتی ہے۔
قارئین کرام، اس سلسلے میں انتظامیہ اور خاص کر شہر کے ایم پی اے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ پھر مینگورہ کے "بائیس کروڑ عوام” (یہ اعداد و شمار ایم پی اے صاحب کے اپنے ہیں) کا ہاتھ ہوگا، اور حکومت وقت کا گریبان!

……………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔