عالمی سطح پہ معاملات جس تیزی کے ساتھ بدلتے جا رہے ہیں، کچھ بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں امریکی چوہدراہٹ کا بُت بھی ٹھیک اُسی طرح پاش پاش ہو جائے جس طرح سابق سوویت یونین کا ہوا تھا۔ ایسا ہونا مستقبلِ قریب میں تو ناممکن دکھائی دیتا ہے، لیکن مستقبلِ بعید میں ایسا ہو جانا اچھنبے کی بات اس لیے بھی نہیں کہ پوری دنیا میں معاملات تیزی کے ساتھ وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ شام میں اپنی مرضی کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکنا، عراق میں ایک عرصے سے موجودگی کے باوجود وہاں کے منظر نامے پہ مکمل گرفت کے حصول میں مشکلات، افغانستان میں نائن الیون کے بعد حملے کے جواز کے بعد سے لے کر اب تک معاملات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پہ آچکا ہے، اور جن کو کل دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا تھا، آج ان کے ساتھ ایک میز پہ بیٹھنا اچھا لگ رہا ہے۔ یمن (حواری کے لیے) گلے کی ایسی ہڈی بنتا جا رہا ہے جسے نے نگلا جا سکتا ہے نہ اُگلا جانا ہی ممکن لگ رہا ہے۔ سعودی عرب؍ یمن تنازعے میں ایک فریق ہے اور ائیرپورٹس پہ حالیہ حملے اس بات کی دلیل ہیں کہ معاملات اتنے سادہ نہیں، جتنے نظر آ رہے ہیں۔ خطے میں جہاں سعودی عرب اپنا اثر رسوخ بڑھانا چاہتا ہے، تو دوسری جانب ایران اپنی سرداری چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اور شام، عراق اور یمن میں ایران کی روس کے ساتھ گٹھ جوڑ کسی بھی طرح امریکہ اور سعودی عرب کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ قطر کا ناطقہ سعودی عرب نے بند کیا۔ خلیجی ریاستوں کے ساتھ مل کے تو ایران نہ صرف مدد کو آیا بلکہ قطر کو ہر ممکن تعاون کا یقین بھی دلایا۔ اندریں حالات یہ کہ خطۂ خلیج اس وقت مکمل طور پہ عالمی طاقتوں کی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے اور جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے، اس تجربہ گاہ کا رقبہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ تازہ ترین صورت حال کے مطابق نیا میدان ’’ایران‘‘ میں تیار ہو رہا ہے، اور صف بندیاں جاری ہیں۔
یمن، شام، عراق اور افغانستان مکمل طور پر ایک الگ پس منظر رکھتے تھے۔ یمن قدرے غیر مستحکم ملک تھا، تو عراق اور شام بھی ایک عرصے سے ریشہ دوانیوں کی وجہ سے کمزور ہو چکے تھے، محاذ آرائی آسان تھی۔ فیصلہ سازوں کو زیادہ سوچنا بھی نہیں پڑا ہوگا۔ افغانستان تو کئی دہائیوں سے زمانۂ امن کم دیکھ پایا ہے۔ چند سال جو امن کے ملے، نائن الیون کا ناسور انہیں بھی کھا گیا۔ موجودہ حالت یہ ہے کہ حکومت کابل تک محدود ہے اور امریکی وہاں سے جان چھڑانے کو بے تاب ہوئے جاتے ہیں، لیکن معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ ترکی خطے میں پہلے ہی اپنا جھکاؤ روس کی طرف دکھا رہا ہے اور ایف 35 کے معاملے پہ امریکہ کے ساتھ معاملات سرد مہری کا شکار ہیں۔ میزائل ڈیفنس سسٹم کا امریکہ کے علاوہ کسی ملک سے حصول بھی ایک اہم پیش رفت ہوگا۔ ان تمام حالات میں ایران کے خلاف کوئی محاذ آرائی کیا رُخ اختیار کرے گی، اس کی پیش گوئی اتنی آسان نہیں، لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ دلدل میں پاؤں دھنستے ہوئے معلوم تب ہوتا ہے جب گردن تک آدمی دب جاتا ہے۔ امریکہ، ایران کے ساتھ حالیہ تنازعے میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، تو ایران بھی سخت مؤقف میں مستقل مزاجی اپنائے ہوئے ہے۔ امریکی ڈرون کو گرانا جہاں ایک طرف امریکی پالیسی سازوں کو غصہ دلا گیا ہے، تو دوسری جانب ان کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر اتنی جدید ٹیکنالوجی کا حامل ڈرون ایران گرا سکتا ہے، تو روایتی جنگ میں نقصان کا تناسب کیا ہوگا؟ عالمی طاقت ہوتے ہوئے یقینی طور پہ ایران، امریکہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا، لیکن ایران شائد افغانستان بھی ثابت نہ ہو۔
اس تمام تر صورتحال میں پاکستان خطے کا ایک اہم ملک ہے۔ ایران کے خلاف کسی محاذ آرائی میں پاکستان ایک دوراہے پہ کھڑا ہے۔ امریکہ کا ساتھ دے، تو برادر اسلامی ملک سے تعلقات طویل عرصے تک خراب ہو سکتے ہیں، جو پہلے ہی سرد مہری کا شکار ہیں۔ بلوچستان میں مسائل، بھارت کے ساتھ ایران کی دوستی کی پینگیں،اسی تلخی کی کڑیاں ہیں۔ دوسری جانب پاکستان، ایران کی حمایت کرکے امریکہ کی ناراضی بھی کسی صورت مول نہیں لے سکتا۔ غیرجانب دار رہنا بظاہر ناممکن نظرآتا ہے، لیکن اس معاملے میں بھی یمن پہ اپنائے جانے والے اپنے مؤقف کو دوبارہ اپنایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں پارلیمان کا سہارا بھی لیا جانا بہترحل ہے۔
اس طرح چین اور امریکہ بھی آمنے سامنے ہیں۔ چینی ٹیکنالوجی کمپنی پہ پابندی نے اس محاذ آرائی کو ہوا دی ہے۔ چین ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ پہ کی گئی سرمایہ کاری کسی صورت ضائع نہیں ہونے دے گا۔ افغانستان میں طالبان کے ساتھ معاملات بہتر کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ایران اور طالبان کے معاملات بھی بہتری کی جانب آ رہے ہیں کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد ایران اپنا کردار بڑھانا چاہتا ہے۔ بھارت الگ سے خطے میں ایران کے ساتھ قرابت داری اپنائے ہوئے ہے۔ ان حالات میں ایران کے خلاف روایتی جنگ لڑنا دیوانے کی بڑتو ہو سکتا ہے، عقلمندی نہیں۔
تر نوالہ ایران اس لیے بھی نہیں کہ عالمی پابندیوں کے دوران میں یقینی طور پہ ایران نے اپنی بقا کے نئے راستے تلاش کیے ہوں گے اور اتنے عرصے تک عالمی دنیا کے ساتھ رابطہ استوار کیے ہوئے، سپر پاؤر سے مخاصمت میں لہجہ سخت کیے رکھنا آسان کام نہیں تھا۔ روحانی پیشوا کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیاں نیا قدم ہیں، جو امریکہ نے ایران پہ دباؤ بڑھانے کے لیے اٹھایا ہے۔ اب ایران کس قدر جھکتا ہے، آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
حالات گواہی دے رہے ہیں کہ ایران اس وقت عالمی طاقتوں کے لیے ایک نیا میدان ہے، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ میدان نہ عراق جیسا شورش زدہ ملک ہے، نہ ہی شام جیسا کمزور ملک۔ ایران نہ تو افغانستان جیسا جنگ زدہ ملک ہے، نہ یمن جیسا دوسروں پہ انحصار کرنے والا ملک۔ وہ معاشی مسائل کا شکار ہے، مذہبی رجحانات و جدت پسندی میں کشمکش بھی جاری ہے، لیکن حیران کن طور پر عوام کی اکثریت امریکی محاذ آرائی کے خلاف حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور کسی بھی معاملے پہ ’’مرگ بر امریکہ‘‘ کا نعرہ سب مل کے لگا رہے ہیں۔
ایران اس وقت عالمی طاقتوں کے لیے مستقبل کی فیصلہ سازی کا مرکز بھی بن چکا ہے۔ چین، روس اور ترکی جھکاؤ ایران کی طرف دکھا رہے ہیں، تو یورپی طاقتیں امریکہ کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں، لیکن حیران کن پہلو یہ ہے کہ یورپی طاقتیں نیوکلیئر ڈیل پہ امریکہ جیسا سخت مؤقف نہیں اپنا رہیں۔ سعودی عرب کی ایران سے مخالفت ڈھکی چھپی نہیں۔ خلیجی ریاستیں بھی اُس کی ہم نوا ہیں، لیکن ایران کے پڑوس کے دیگر ممالک قدرے مختلف رجحان اپنائے ہوئے ہیں۔ بھارت بھی حیران کن طور پر ایران کے قریب آ رہا ہے۔ اس لیے عالمی سطح پہ جنم لینے والے حالات کو چوں چوں کا مربہ کہیں، تو غلط نہیں ہو گا کہ اس وقت مفادات کا کھیل مکمل طور پر عروج پر ہے۔ چین تجارتی جنگ میں امریکہ کو پریشان کر رہا ہے، ترکی طیب اردوان کی قیادت میں نئے دور میں داخل ہو رہا ہے، روس دوبارہ سے اپنے عروج کی گم شدہ داستان پانے کی تگ و دو میں ہے، اور یہ سب امریکی عزائم کے خلاف ہے۔ امریکہ کسی بھی صورت چین کو دنیا کی معیشت پہ راج کرنے نہیں دینا چاہتا، جب کہ چین بنا کسی بڑی محاذ آرائی کے مقاصد حاصل کر تا چلا جا رہا ہے۔ ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ مکمل ہوگیا، تو امریکہ کی اجارہ داری کو ویسے ہی خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ روس بھولا کچھ نہیں، وقت کی گرد اُٹھ رہی ہے۔ بدلے کی آگ کا الاؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
ایران میں جو میدان تیار ہے۔ وہ عالمی طاقتوں کی محاذ آرائی کو بھی ایک نئی جہت دے گا۔ آنے والے وقت میں نئے اتحاد بنتے نظرآرہے ہیں جس میں روس، چین اور ترکی اولین صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ بھارت کا جھکاؤ کس جانب ہوگا، ابھی واضح نہیں۔ پاکستان نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ مکمل طور پہ امریکہ کی نائن الیون جیسی حمایت شاید اب ممکن نہ ہو۔ سعودی عرب موقع پاتے ہوئے ایران کو غیر مستحکم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ دوسری طرف ایران، یمن کی صورت حال کو مزید اپنے لیے استعمال کرے گا۔ شام و عراق میں بھی ہاتھیوں کی لڑائی میں چیونٹیاں مسلی جائیں گی۔ جنگ کا میدان سجتا ہے، تو زمین سے اٹھنے والی دھول بہت کچھ اپنے اوٹ میں چھپا لیتی ہے۔ سرسبز میدان ویرانے بن جاتے ہیں۔ شفاف دریا گدلے ہو جاتے ہیں۔
قارئین کرام! ایران اور امریکہ کی مخاصمت کیا گل کھلانے جا رہی ہے، معلوم نہیں! لیکن یہ ایک کھلا راز ہے کہ جو ہونے جا رہا ہے، وہ دنیا کے امن کے لیے بالکل فائدہ مند نہیں۔

………………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔