پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوتے ہی ڈالر کی قیمت بڑھی اور روپیہ کی گھٹتی چلی گئی۔ دراصل پاکستان کے عوام کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ان کے پاس موجود رقم کس طرح کم ہوتی ہے؟ اس کے ساتھ لاکھوں نوکر پیشہ لوگوں کی تنخواہوں میں کس طرح کٹوتی ہوجاتی ہے؟
قارئین، جب حکومت کے پاس وسائل نہیں ہوتے، ملکی خزانہ خالی ہوتا ہے اور حکومت چلانے کے لیے اس کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے، تو وہ عوام کے ساتھ ایک کھیل کھیلتے ہیں، جو پچھلی حکومتوں نے بھی کھیلا ہوتا ہے، مگر اس حکومت نے تو حد ہی کر دی۔ جب پی ایم ایل کی حکومت ختم ہوئی، تو اس وقت ایک ڈالر کی قیمت 111 روپیہ تھی۔ یکم جون کو نگران وزیراعلیٰ نے حلف لیا، تو ڈالر کی قیمت 119 روپے کے برابر تھی۔ اس طرح جب پی ٹی آئی کو حکومت ملی، تو وہی ریٹ برقرار تھا۔ آج ایک ڈالر کی قیمت 157 روپے کے برابر ہے۔ حکومت کو اس سے کیا فائدہ ہے؟ اس کی وضاحت ضروری ہے۔
دراصل حکومت جب روپیہ جاری کرتی ہے، تو اس پر لکھا ہوتا ہے کہ "حاملِ ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا!” مطلب اس کا یہ ہے کہ اس رقم کے برابر حکومت بدلے میں سونا ادا کرے گی، مگر اب سونے کی جگہ ڈالر نے لے رکھی ہے اور حاملِ ہٰذا مطلب سرمایہ کاروں کو پاکستانی رقم کے بدلے ڈالر ادا کرنا ہوگا۔ اس طرح ملک میں زیرِ گردش رقم، زرِمبادلہ کے ذخائر کے حساب سے رکھی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر حکومت کے پاس دس ارب ڈالر موجود ہے، تو 119 کے حساب سے 119 کھرب روپیہ زیرِ گردش ہے۔ اب جب حکومت نے ڈالر کی قیمت بڑھا کر 157 روپے کر دی، تو ظاہری بات ہے کہ حکومت کے پاس 157 کھرب روپیہ ہونا چاہیے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ 38 کھرب روپے حکومت کے پاس بغیر کسی خدمات کے دست یاب ہوگئے اور دھڑا دھڑ نوٹوں کی چھپائی کر دی گئی۔ اضافی رقم سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی شکل میں اور دیگر اداروں کو بقایاجات کی صورت میں ادا کر دی جاتی ہے۔ اس سے لاکھوں سرکاری و غیر سرکاری ملازمین اور اداروں کا بری طرح نقصان ہوجاتا ہے۔
امسال ڈالر کے حساب سے پاکستانی روپیہ 24 فی صد گھٹ کر رہ گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سال قبل جس ملازم کی تنخواہ 30 ہزار روپیہ تھی، حکومت اب اس کو 22 ہزار 8 سو ادا کر رہی ہے، یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومت نے چالاکی سے ملازمین کی تنخواہیں 24 فی صد کم کر دی ہیں۔ دوسری طرف عوام بے چاروں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیا کیا جائے؟ اگر حکومت اعلان کرے کہ ہمارے پاس تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے رقم نہیں، اور تمام ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کا فیصلہ کیا جاتا ہے، تو اس کے انجام سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ اس وجہ سے حکومتیں عوام کے ساتھ یہ کھیل کھیلتی ہیں۔ اس حساب سے ضروت کی تمام اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ حکومت پیڑول باہر سے منگواتی ہے۔ اس کی قیمت بڑھتے ہی تقریباً تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس طرح روپے کی قیمت کم ہوجانے سے زمین دار اور کاروباری لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی اشیا باہر ملکوں کو بھجوائیں۔ اس سے حکومت کو کچھ فائدہ تو ہوجاتا ہے، مگر معیاری اور اچھی کوالٹی والی چیزیں باہر ملکوں میں چلی جاتی ہیں، جس سے معیارِ زندگی پر برا اثر پڑتا ہے۔
قارئین، اب دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ ٹماٹر کی قیمت تک کو بین الاقوامی مارکیٹ کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا، تو پاکستان کے عوام جو پہلے ہی سے مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ ہیں، اور خودکشیوں پر مجبور ہیں، اس سے معاشرے میں جرائم کی شرح بڑھ جائے گی، بیماریاں پھیل جائیں گی، لوگ مایوسی کا شکار ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ سرکاری محکموں میں کرپشن مزید بڑھ جائے گی۔ سود کی طرف لوگ مائل ہوجائیں گے۔ باہر کی سرمایہ کاری جو بہت ہی کم ہوچکی ہے، تقریباً ختم ہوجائے گی۔ اس طرح ملکی سالمیت کو بھی خطرات درپیش ہوجائیں گے۔ کیوں کہ دفاعی ساز و سامان بھی زیادہ تر باہر ملکوں سے منگوایا جاتا ہے۔
میری ذاتی رائے ہے کہ حکومت کو فوری طور پر چائینہ سے درآمدات پر نظرِثانی کرنی چاہیے۔ ملکی مصنوعات کو فروغ دینا چاہیے۔ ماضی میں پاکستانی چمڑے، بجلی، کھیلوں، آلاتِ جراحی اور گارمنٹس سے کافی زیادہ زرِمبادلہ حاصل ہوتا تھا، مگر غلط پالیسیوں کی وجہ سے مذکورہ شعبوں سمیت بہت سے دوسرے شعبے بھی متاثر ہیں اور ان کی اصلاحِ احوال کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس کی طرف اگر توجہ دی جائے، تووہ وقت دور نہیں کہ پاکستان ایشین ٹائیگربن جائے۔

……………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔