صورتِ حال ایسی ہے کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ ہے۔ ایک طرف کھائی ہے، تو دوسری طرف غار منھ کھولے ہوئے ہے۔ قومی حزبِ اختلاف کے نام پر وہ پارٹیاں اپنے مفادات کے لیے اکھٹی ہو رہی ہیں، جنہوں نے ایک طویل مدت تک اس ملک پر حکمرانی کی ہے۔ لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ بد عنوانی اور بیڈ گورننس کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اب جب مکافاتِ عمل کے شکنجے میں کس گئے ہیں، اور پارٹی سربراہ اوران کے چیلے چانٹے جیلوں میں بند اور کچھ نیب تحقیقات کا سامنا کر رہے ہیں، تو وہ پارٹیاں جو اقتدار کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے متقابل حریف اور دشمن تھے۔ اب اپنے بچاو کے لیے متحد ہو رہی ہیں۔ بلاول اور مریم نواز کی ملاقات اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ کچھ دنوں بعد مولانا فضل الرحمان کی سرکردگی میں آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد ہو رہی ہے، جس میں حکومت کے خلاف تحر یک چلانے کا لائحہ رمل طے کیا جائے گا۔
اس وقت قومی اسمبلی میں سالانہ بجٹ زیرِ بحث ہے۔ اسمبلی اجلاس تو نام کی حد تک بجٹ پر بحث کے لیے بلایا گیا ہے، لیکن ماحول کچھ ایسا بن گیا ہے کہ بجٹ پر بحث پس منظر میں اور حکومت اور حزبِ اختلاف کی دھینگا مشتی، گالی گلوچ اور ہاتھا پائی پیش منظر ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف ایسی زبان اور ایسا لب و لہجہ اختیار کیا جا رہا ہے،جس کا شرافت و سنجیدگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اب بجٹ منظوری کے لیے حکومت نام نہاد حزبِ اختلاف کے بندوں کو توڑ کیا بلکہ خرید رہی ہے، اور حزبِ اختلاف حکومتی اتحاد میں رخنہ ڈالنے اور بجٹ کو مسترد کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔
حکومتی اتحاد کی چار پارٹیوں کا اجلاس چوہدری شجاعت حسین کے ہاں منعقد ہو چکا ہے اور انہوں نے اس اجلاس میں ضرور یہ طے کیا ہوگا کہ حکومت کی حمایت کی صورت میں کیا کیا مطالبات منوانے جائیں گے اور اس خاص موقع کو کن مفادات اور بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ایم کیو ایم کے مطالبات تو خالص اپنے مجرمانہ کردار کے دفاع اور چشم پوشی پر مشتمل ہوں گے۔ ق لیگ تو اپنے خاندانی مفادات سے آگے سوچتی بھی نہیں۔ ان کے لیے تو قوم و ملک کے مسائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ صرف ذاتی مفادات کا ایجنڈا ان کے پیش نظر رہتا ہے۔ بلوچستان کے مسائل کے سلسلے میں اختر مینگل حکومتی رویے سے مایوس ہیں۔ وہ ضرور بلوچستان کی محرومی، پس ماندگی، بدامنی اور مسنگ پرسنز کا مسئلہ اٹھائیں گے،جو موجودہ حکومت کے بس اور اختیار میں نہیں۔ اس وجہ سے اگر یہ حکومتی اتحادی حکومت کا ساتھ دیتے بھی ہیں، تو حکومت کو اس کی بہت زیادہ اور ناقابلِ برداشت قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ حکومت پر دباؤ اور زیادہ اور برداشت سے باہر ہو جائے گا۔ دوسری طرف اگر حزبِ اختلاف مطلوبہ تعداد فراہم نہیں کر سکی، اور حکومتی اتحاد کو ترغیبات اور مستقبل کے امکانات پر مطمئن نہیں کر سکی، تو بہرحال اسمبلی کا اجلاس غل غپاڑے، شور شرابے اور افراتفری کا شکار بنانے کی صلاحیت اور طاقت تو رکھتی ہے۔ کیوں کہ اس وقت دو بڑی نام نہاد اور بقول ان کے ملک کی مقبول قومی قیادت کو زندگی اور موت کا مسئلہ درپیش ہے۔ ان کا انداز اب یا کبھی نہیں، انتہائی جارحانہ اور اپنے بچاؤ کے لئے آخری داؤ کھیلنے والا ہوگا۔ کیوں کہ ان کی اقتداری سیاست اس وقت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے میں جب ہم حکومتی کردار اور خاص کر عمران خان کے رویے اور کردار کا جائزہ لیتے ہیں، تو اس سے بھی زیادہ مایوس کن صورت حال نظر آتی ہے۔ سب سے بنیادی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف کی کوئی اخلاقی، قانونی اور سیاسی ساکھ ہی نہیں۔ ان کے تمام وعدے، دعوے اور تبدیلی کے نعرے جھوٹے انتخابی حربے ثابت ہو چکے ہیں۔ اس وقت حکومتی انتظامیہ میں تحریک انصاف کے اپنے بنیادی ارکان کی تعداد بہت کم ہے اور زیادہ تر افراد وہ ہیں جو اس سے پہلے مختلف پارٹیوں میں رہ چکے ہیں۔ یہ خسرو بختیار، غلام سرور ، فواد چوہدری، حفیظ شیخ، زبیدہ جلال، فردوس عاشق اعوان اور دیگر بہت ساے پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی میں وزارتوں اور اختیار و اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں۔ عمران خان اگر پچھلی حکومتوں کو بد عنوانیوں، بیرونی قرضوں کے خرد برد اور موجودہ خراب معاشی صورت حال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، تو پچھلی حکومتوں میں تو ان کی موجودہ ٹیم کے زیادہ تر ارکان بھی شامل تھے۔ عمران خان تو نواز زرداری کی کرپشن اور منی لانڈرنگ اور بیڈ گورننس کی بات کرتے ہیں، لیکن دانستہ یا نادانستہ طور پر پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دورِ حکومت اور بدعنوانی کے خلاف ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن قوتوں کے تعاون اور آشیر باد سے عمران اس وقت اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ان کو یہ ذکر بالکل گوارا نہیں۔
احتساب کا نعرہ عمران نے انتخابات سے پہلے بھی لگایا اور اب بھی ان کی زبان پر یہ لفظ چڑھا ہوا ہے، لیکن عوام میں بجا طور پر یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ احتساب صرف دو افراد کا یا دو پارٹیوں کا؟ آپ کی ٹیم میں جو بد عنوان اور کرپٹ افراد کی کثیر تعداد موجود ہیں، ان کا احتساب کیوں نہیں؟ اس طرح تو آپ نے احتساب کے آئینی ادارے نیب کو مشتبہ اور مشکوک بنا کر رکھ دیا اور ان کی ساری ساکھ خاک میں ملا دی۔ نیب نے حکم جاری کیا کہ جس کے خلاف نیب تحقیقات کر رہی ہو، ان کو سرکاری مناصب اور ذمہ داریاں نہ دی جائیں۔ آپ نے ایسے بہت سے افراد کو حکومتی ذمہ داریاں سونپ کر نیب کے حکم کی صریح خلاف ورزی کی۔ دوسری بات جب نیب ایک خود مختار اور دستوری ادارہ ہے، اس کے اپنے ٹرمز اینڈ کنڈیشنز موجود ہیں، تو آپ کو آئے روزاس بیان بازی کی کیا ضرورت ہے کہ حکومتی مخالف افراد این آر او مانگتے ہیں، لیکن میں این آر او ہر گز نہیں دوں گا۔ اس کا مطلب ہے کہ بدعنوانوں، منی لانڈرنگ کے جرم میں ملوث افراد کو آپ معاف کر سکتے ہیں اور ان کے ساتھ سودے بازی کرسکتے ہیں، لیکن نیب جیسے بااختیار احتساب ادارے کی موجودگی میں کیا آپ کی یہ بات بے محل نہیں۔ اخلاقی ساکھ کی تو آپ کی یہ حالت ہے، لیکن آپ نے نا اہلیت اور دس ماہ کے دوران میں بیڈ گورننس کے بھی تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ معاشی اور اقتصادی مسائل کے حل کے لیے آپ کے تمام دعوے غلط ثابت ہو چکے۔ اقتصادی بحالی کے لیے آپ دس ماہ کے دوران میں کوئی بھی منصوبہ تشکیل نہ دے سکے۔ بقولِ آپ کے مشیر خزانہ کے اس سال آپ نے ریکارڈ 2 ہزار ارب روپے سود میں ادا کیے اور اگلے سال آپ 3 ہزار ارب روپے سود ادائیگی کریں گے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ آپ کی ڈیل ابھی تک پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچی۔ کیوں کہ ان کے بورڈ آف گورنرز نے ابھی تک معاہدے کی توثیق نہیں کی، لیکن اگر یہ چھے ارب ڈالر تین سال کے عرصے میں آپ کو ان کی شرائط کے مطابق ملتے بھی ہیں، تو اس سے صرف آپ کی بیرونی ادائیگیوں کا مسئلہ کچھ تھوڑا بہت حل ہوگا۔ آپ نے عوامی اشک شوئی کے لیے حکومتی اخراجات میں صرف دس فی صد کمی کا اعلان کیا۔ اس پر عمل درا ٓمد ممکن ہے یا نہیں۔ اس کو چھوڑ کر آپ حکومتی اخراجات کے اللّے تللّوں میں پچاس فیصد کمی کر سکتے تھے۔ وزیر اعظم اور صدارتی محل کے اخراجات اور تزئین و آرائش میں اس دوران میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ کمی کی کوئی بات سننے میں نہیں آئی۔ آپ نے درآمدات میں کمی اور حوصلہ شکنی کا کوئی واضح لائحہ عمل نہیں دیا۔ بر آمدات تو خیر ایک مشکل اور آپ کی اہلیت سے بالاتر مسئلہ ہے۔ کیوں کہ ان کے لیے ملکی صنعتی بیس کو تحفظ، مصنوعات کی کوالٹی کنٹرول اور بیرونی منڈیوں تک رسائی اور ان میں اپنے لیے جگہ بنانے کی حکمت عملی تو آپ اور آپ کی ٹیم کے بس کی بات نہیں۔ کیوں کہ آپ کی ٹیم تو انتہائی مضحکہ خیز، نااہل اور غیر پروفیشنل افراد پر مشتمل ہے۔ بھلا فواد چوہدری کا سائنس و ٹیکنالوجی وزارت سے صلاحیت و اہلیت کی بنیاد پر کیا تعلق بنتا ہے؟ اسی معیار پر پوری ٹیم کا جائزہ لیں، تو آپ کی اہلیت، دیانت، صداقت اور وعدہ وعیدوں پر ایک سوال نہیں کئی سوال اٹھتے ہیں۔ اسی لیے ہم آج اس صورت حال سے دوچار ہیں کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔
ایک طرف متاثرہ چوروں، لٹیروں اور قومی مجرموں کو آپ کے بیڈ گورننس بلکہ ظالمانہ حد تک حکومتی اقدامات سے پذیر ائی مل رہی ہے۔ اگر یہ چور لٹیرے آپ کو گرانے میں کامیاب ہوگئے، تو پھر آئندہ دور میں یہ ہما را کیا حال کریں گے؟ یہ سوچ کر دل کانپ جاتا ہے۔ دوسری طرف آپ کی حکومت بھی ہمارے لئے قہرِ خداوندی بن چکی ہے۔ غضب خدا کا ڈالر ایک سو ساٹھ کے قریب، مہنگائی اور گرانی اپنے عروج پر، یوٹیلیٹی بلز میں آئے روز اضافہ، براہِ راست ٹیکسوں کی بھر مار۔ کالم کا دامن تنگ اور آپ کے ظالمانہ حکومتی اقدامات کے طلسم ہوش ربا کی تفصیلات بے شمار۔ بس صر ف اس امید پر کہ اللہ رحیم، کریم نہ ظلم برداشت کرتا ہے اور نہ نا اہلیت۔

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔