امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی 1979ء کے انقلابِ ایران سے چلی آ رہی ہے۔ اس وقت ایرانی طلبہ نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرکے اسے نذرِ آتش کیا تھا، جب 1988ء کو امریکہ نے ایک ایرانی مسافر بردار جہاز کو مار گرایا تھا۔ پھر کشیدگی کھلی دشمنی میں تبدیل ہوگئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے مفادات کو نقصان پہچانے کی بھرپور کوششیں کیں۔ امریکہ نے ایران کو بارہ سال تک عراق کے ساتھ جنگ میں الجھائے رکھا۔ ایران نے عراق، لیبیا، فلسطین، بحرین، یمن اور شام میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یمن میں حوثی باغیوں کی مدد کرکے امریکی اتحادی سعودی عرب کو خوب پریشان کیے رکھا۔ ان حالات سے متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر بھی بہت متاثر ہوئے۔ دونوں کے درمیان کشیدگی میں اس وقت مزید اضافہ ہوا، جب بارہ مئی کے روز ابنائے ہرمز کے راستے جانے والے سعودی عرب کے دو آئل ٹینکرز سمیت دیگر ممالک کے تیل لے جانے والے ٹینکرز کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ چوں کہ سعودی عرب اور دیگر ممالک کی تیل کمپنیوں میں امریکی کمپنیاں بھی حصہ دار ہیں۔ اس لیے امریکہ نے اس تخریبی کارروائی کی کوشش کو اپنے خلاف کارروائی قرار دیا۔ امریکہ کو شبہ ہے کہ تخریب کاروں کو ایرانی حکومت کی حمایت حاصل ہے، جب کہ ایران نے اس واقعہ میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
آبنائے ہرمز جو خلیج عمان اور خلیج فارس کے درمیان واقع ہے کے راستے(خاص کر آبنائے ہرمز) سے تیل کی دولت سے مال مالا ریاستیں باقی دنیا کو تیل فراہم کر تی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر کو ہر روز تیل کی کل رسد کا 20 فیصد اس راستے سے گزر تا ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ نے خطے میں اپنی فوجی صلاحیت بڑھانے اور ایران کے خلاف گھیرا تنگ کرتے ہوئے ایک لاکھ فوج سمیت طیارہ بردار بحری بیڑے، B-52، F.15، F-35 جنگی ہوائی جہاز اور بعض ایٹمی آلات خلیجی اڈوں پر پہنچا دیے ہیں۔ لگتا تو یہی ہے کہ امریکہ، ایران کے ساتھ مزید رعایت یا نرمی کے حق میں نہیں ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ایران کے ممکنہ حملے کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔
ایران اور امریکی کشیدگی نے خطے میں جنگ کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اس کشیدگی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب امریکی صدر نے ایرانی تیل کی برآمدات کو صفر تک لے جانے کا اعلان کردیا۔ دوسری طرف ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدہ (جس کو امریکی صدر ٹرمپ یک طرفہ طور پر ایک سال پہلے ختم کرچکے ہیں) کے دوسرے فریقین چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو خبردار کیا ہے کہ اگر ایران پر معاشی پابندیاں اس طرح جاری رہیں، تو وہ بھی جوہری معاہدے پر عمل درآمد ختم کرتے ہوئے یورینیم کی دوبارہ افزودگی شروع کر دے گا۔
امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں جب کہ پابندیاں مؤثر نہ ہونے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ براہِ راست جنگ کی دھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔ اس حوالہ سے امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے ایران کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو کبھی دوبارہ دھمکی نہ دی جائے۔ اگر ایران لڑنا چاہتا ہے، تو بتا دے، وہ ایران کا آخری دن ہوگا۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے ہنر و فن اور ثقافت سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے ہونے والی ملاقات میں امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت ایرانی قوم کو نہیں جھکا سکتی۔ ایران مذاکرات اور منطق پر یقین رکھتا ہے۔ اس کو مذاکرات کی میز پر لانے والے جھوٹ بولتے ہیں۔ پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر میجرجنرل حسین سلامی سے ایک بیان منسوب کیا جاتا ہے کہ ایران جنگ نہیں چاہتا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم میں اور دشمن میں یہ فرق ہے کہ دشمن جنگ سے خوف زدہ ہے اور جنگ لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا۔
پاسدارانِ انقلاب کے ڈپٹی ہیڈ ہداللہ جوانی نے ایر انی نیوزایجنسی تسنیم کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ایران پر کسی ممکنہ جارحیت کا ایسا منھ توڑ جواب دیا جائے گا، جو امریکہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔
سعودی عرب بھی ایرانی مخالفت میں خم ٹھونک کر میدان میں آگیا ہے۔ سعودی وزیر برائے امورِ خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ ایرانی حکومت خطہ کے امن و استحکام کے لیے کام نہیں کر رہا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب جنگ نہیں چاہتا۔ اگرا یران نے جنگ کی راہ اختیار کی، تو سعودی عرب اس جارحیت کا مصمم ارادے اور بھرپور طاقت سے جواب دے گا۔ سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان عبدالعزیز نے خطے کی تازہ صورت حال اور ایران سے کشیدگی کے تناظر اور خلیجی ممالک کو درپیش خطرات کے تدارک کے لیے خلیج تعاون کونسل، عرب لیگ کا فوری اجلا س 30 مئی اور اسلامی سربراہ کا اجلاس 31 مئی کو بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
مصر اور ترکی امریکہ کی اتنی بڑی فوجی نقل و حرکت کو علاقائی امن کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں اور ایسے میں ترکی امریکہ کے خلاف بھی کھڑا ہو سکتا ہے۔ ایران سے دشمنی رکھنے والے ممالک چاہتے ہیں کہ امریکہ ایران پر حملہ کردے۔ امریکہ بھی یہی چاہتا ہے۔ کیوں کہ اسلامی ممالک میں اب ایران اور پاکستان دو ایسے ممالک ہیں جو امریکہ کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ جنگ کی صورت میں امریکہ کا نقصان بہت کم ہوگا۔ کیوں کہ یہ جنگ امریکی سرحد سے تقریباً سات سو کلومیٹر دور خلیج اور جنوبی ایشیا کے ممالک میں لڑی جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ جنگ ایران اور امریکہ تک محدود نہ رہے۔ امریکہ ایران جنگ سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوگا اور پاکستان کے لیے ان اثرات سے بچنا ناممکن سا لگ رہا ہے۔
پاکستان کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ اس جنگ کے اثرات سے بچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔