لگ بھگ پانچ ہفتوں اور سات مرحلوں پر محیط بھارتی الیکشن جلد تمام ہونے کو ہیں۔ سروے، میڈیا پولزہوں یا مبصرین کے تجزیے، وہ سب باور کراتے ہیں کہ اس مرتبہ مقابلہ کانٹے دار ہے۔ گذشتہ عام الیکشن کے برعکس نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی واضح اکثریت حاصل کرنے کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں۔ امکان ہے کہ گذشتہ الیکشن میں حاصل کردہ نشستوں میں سے وہ نوے کے لگ بھگ کھو دے گی۔
نہرو خاندان کے وارث راہول گاندھی نے گذشتہ چند برسوں اور خاص کر حالیہ چند ماہ کے دوران میں اپنے آپ کو ایک اعتدال پسند اور اقلیتوں کے ہمدرد لیڈر کے طور پر منوایا۔ کانگریس نے جو منشور پیش کیا، وہ بی جے پی کے برعکس متوازن اور ایک لبرل پارٹی کے شایانِ شان نظر آتا ہے۔ بی جے پی اپنی الیکشن مہم میں اس مرتبہ ترقی، خوشحالی اور روزگار کی فراہمی کے خوش نما وعدوں کو گول کرگئی۔ اس کے برعکس بی جے پی کی لیڈر شپ نے نیشنل سیکورٹی اور خاص کر پاکستان اور کشمیری مزاحمت کاروں کو تنقید کے نشانے پر رکھا۔ سارا زور پاکستان کو نشانۂ عبرت بنانے پر رکھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ خود وزیراعظم مودی کا لب و لہجہ محض جارہانہ نہیں بلکہ لشکرانہ رہا۔ چناں چہ شہ پاکر دیگر بی جے پی لیڈروں نے بھی خوب ہرزہ سرائی کی۔ کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتوں خاص کر سماج وادی پارٹی، عام آدمی پارٹی، کمیونسٹ پارٹی، ترنمول کانگریس آف بنگال، سماجی وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی جیسی طاقتور مگر علاقائی جماعتوں نے بی جے پی کے طرز سیاست کو آڑے ہاتھوں لیا۔ سیکورٹی فورسز کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کا بھی اس پر الزام لگایا گیا۔ بدقسمتی کے ساتھ یہ جماعتیں کانگریس کے ساتھ قبل ازالیکشن کوئی اتحاد تشکیل نہ دے پائے۔ ان کا ووٹ تقسیم ہونے اور بی جے پی کا فائدہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ بھارت کی طرح امریکہ میں بھی کچھ ریاستوں کو بائبل بلٹ کہا جاتا ہے، جہاں کی آبادی ووٹ ڈالتے وقت مذہبی رجحانات کو عمومی طور پر مدِنظر رکھتی ہے اور ری پبلیکن پارٹی کو ووٹ کرتی ہے۔
اسی طرح بھارت میں بھی دس ریاستیں اور یونین ٹیریٹوریز ایسی ہیں جنہیں ہندی بلٹ کہا جاتا ہے۔ بہار، مدھیہ پردیش، راجھستان اور اترپردیش جیسی بڑی ریاستیں بھی ان میں شامل ہیں۔ امکان ہے کہ اُترپردیش کو چھوڑ کر باقی ریاستوں میں بی جے پی نمایاں برتری حاصل کرلے گی۔ اس کے برعکس جنوبی اور مشرقی انڈیا کی ریاستوں میں کانگریس اور علاقائی جماعتوں کو عدی برتری حاصل ہونے کا امکان ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مرتبہ مسلمانوں کا ووٹ بینک الیکشن مہم میں کم ہی زیرِ بحث آیا۔
بی جے پی کی لیڈر شپ تو رونا روتی ہے کہ کانگریس کی حکومتوں نے مسلمانوں کی خاطر اکثریتی آبادی یعنی ہندوؤں کو جائز حقوق نہیں دیئے۔ دیگر جماعتیں بھی بی جے پی کے خوف سے مسلمانوں کو اگلی صفوں میں جگہ دینے کو تیار نہیں۔ اترپردیش میں چار کروڑ مسلمان آباد ہیں لیکن سیاسی جماعتیں انہیں الیکشن کے معرکے میں اتارنے سے کتراتی رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اب کی بار بھارتی مسلمان کسی ایک جماعت یا شخصیت کی حمایت کرنے کی بجائے اپنے مقامی مفادات کے مطابق ووٹ کرتا رہا۔ یہ طرزِ عمل زیادہ دانشمندانہ فیصلہ نظر آتا ہے۔
جہاں تک وادیِ کشمیر کا تعلق ہے، تو وہاں کی تین نشستوں پر الیکشن کو ایک ناکام مشق قرار دیا جاسکتا ہے۔ کچھ علاقوں بالخصوص ترال، پلوامہ اور شوپیاں میں ڈھائی فی صد ووٹ پڑے۔ عمومی طور پر کل 18 فی صد ووٹنگ ہوئی۔ سمجھ نہیں آتی کہ اس قدر کم ووٹ حاصل کرنے کے بعد بھی لوگ پارلیمنٹ میں جاکر عوامی نمائندگی کا دعویٰ کس منھ سے کرتے ہیں؟ امکان ہے کہ بی جے پی بمشکل سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر ابھرے گی۔ مخلوط حکومت بنانے کے سوا اس کے پاس کوئی چار ہ نہیں ہوگا۔
کانگریس اور اس کے اتحادیوں کا بھی بڑے مارجن کے ساتھ سامنے آنے کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کے اندر جو بھی حکومت بننے گی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی طرح اس کی بقا کا انحصار بھی اتحادیوں کے رحم وکر م پر ہوگا۔ آخری انتخابی معرکہ 19 مئی کو برپا ہونا ہے۔ دو دن بعد نتائج کا اعلان لیکن اس سے پہلے ہی سیاسی منظر نامہ واضح ہوجائے گا۔ میڈیا پول اور دیگر جائزے یہ بتادیں گے کہ اگلے پانچ برسوں تک بھارت کی قیادت کا تاج کس کے سر سجے گا؟
پاکستان کی سیاسی اور ملٹری لیڈرشپ میں عمومی طور پر تاثر پایا جاتا ہے کہ الیکشن کے بعد نریندر مودی برسرِاقتدار آکر پاکستان کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان کو زعم ہے کہ وہ بھارت کو سمجھتے بہت ہیں۔ وہ بالی ووڈ یا کرکٹ کو ضرور سمجھتے ہوں گے لیکن بھارتی ’’راج نیتی ‘‘ کی حرکیات کو نہیں۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ الیکشن کے بعد بھارت کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع ہوجائے گا۔
باخبر ذرائع سے سنا ہے کہ کوئی بیک چینل کچھ عرصے تک متحرک رہا لیکن اب غائب ہوچکا ہے۔ حالیہ الیکشن کے دوران میں پاکستان کے خلاف سخت گیر اقدامات بھارتیہ جنتا پارٹی کے نہ صرف منشور کا حصہ رہے بلکہ وزراعظم مودی سے لے کر پارٹی لیڈروں تک ہر ایک نے جی بھر کر بھڑاس نکالی۔ بھارتی عوام کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ خاص کر ہندی بولنے والے علاقوں میں پاکستان اور کشمیر مخالف جذبات کو میڈیا نے خوب ہوا دی۔ میڈیا کے طاقتور گروپوں نے بی جے پی کی مہم میں کندھے سے کندھا ملا کر ساتھ دیا۔ بی جے پی کے بیانیے کو قومی بیانیے کی شکل دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔
اس پس منظر میں یہ توقع کرنا کہ مودی برسرِ اقتدار آکر پاکستان کے ساتھ نئی شروعات کریں گے، سادہ لوحی کی دلیل ہے۔ خدشہ ہے کہ اپنے بیانیے کو مزید بڑھاوا دیں گے۔ کیوں کہ اسی بیانیے کو کامیابی کا زینہ بناکر وہ تختۂ دلی پر فائز ہوچکے ہوں گے۔ آزموہ اور کامیاب حربوں کو وہ دفن کرنے کی بجائے پاکستان پر مزید دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت نے بھارت کے حوالے سے ایک معتدل پالیسی اختیار کرکے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے، جسے جاری رکھا جانا چاہیے لیکن کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ مودی اور اٹل بہاری واجپائی کی شخصیت اور طرزِ سیاست میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ واجپائی مدبر سیاست دان تھے جو گروہی سیاست سے اوپر اٹھ کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ راہول گاندھی میں مدبرانہ سیاست کرنے کی صلاحیت نظر آتی ہے، لیکن بی جے پی کی موجودہ لیڈرشپ میں نہیں۔
حرف آخر:۔ پاکستان نے داخلی سطح پر شدت پسند گروہوں کو تنہا اور انہیں محدود کرنے کی جو پالیسی اختیار کی اسے بھارت کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ یہ پاکستان کی اپنی ضرورت ہے کہ اس سرزمین پر کوئی بھی جماعت یا گروہ طاقت کے ذریعے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے قابل نہ رہے۔ اس پالیسی کو ہر حال میں جاری رکھا جانا چاہیے۔

……………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔