امریکہ اور ایران تنازعہ خطے میں شدید کشیدگی کا سبب بنا ہوا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے بارک اوباما اور ایران کے درمیان ایٹمی پروگرام پر معاہدے کو ختم کیے جانے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات میں روز بہ روز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایران نے بھی امریکہ کے اقدامات پر سخت ردِعمل دیتے ہوئے 2015ء کے معاہدے کی منسوخی کا عندیہ دے کر اعلیٰ سطح پر یورنیم کی افزودگی کا عندیہ دیا ہے۔ جب کہ امریکہ نے ایران کے متوقع ردعمل کے تناظر میں ابراہام لنکن نامی جنگی بحریہ خلیج فارس میں تعینات کردیا ہے۔ یہ جنگی بحریہ پہلے ہی سے جنگی مشقوں کے لیے موجود تھا، تاہم جنگی مشقوں کے اختتام کے بعد ایران کے نزدیک جنگی بحری بیڑے کی تعیناتی نے کشیدگی میں مزیداضافہ کردیا ہے۔ جنگی بیڑے کی تعیناتی امریکی افواج پر ممکنہ حملے کے دعویٰ کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
امریکہ کے مشیر قومی سلامتی ’’جان بولٹن‘‘ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ایران کی جانب سے متعدد دھمکیوں اور اکسانے والے بیانات کے جواب میں کیا گیا ہے۔ جان بولٹن کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی حملے کی صورت میں ’’سخت قوت‘‘ کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔
چارٹس میں جان بولٹن نے ایک بیان میں کہا کہ ’’امریکہ اپنا ابراہم لنکن نامی جنگی بحری بیڑا اور بمبار ٹاسک فورس امریکی سینٹرل کمانڈ کے علاقے میں تعینات کر رہا ہے، تاکہ ایرانی حکومت کو واضح اور بے مغالطہ پیغام بھیجا جا سکے کہ ہمارے یا ہمارے اتحادیوں کے مفادات پر کسی بھی قسم کے حملے کا سخت قوت کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔‘‘
ایران نے جواباً کہا ہے کہ جان بولٹن سیکورٹی اور عسکری معاملات سے لاعلم ہیں۔
ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کیوان خسروی نے امریکہ کے مشیر قومی سلامتی کے حالیہ بیان کے ردعمل میں کہا کہ ’’امریکی مشیر سلامتی جان بولٹن کی باتیں دکھاوے کے سوا کچھ نہیں اور نہ ہی انہیں سیکورٹی اور عسکری معاملات سے متعلق کچھ معلوم ہے۔‘‘
سنیئر ایرانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’’ایران کی مسلح افواج کی مصدقہ اطلاعات کے مطابق امریکی بحری بیڑا ابھی نہیں بلکہ 21 روز پہلے سے ہی بحیرۂ روم میں موجود ہے۔ لہٰذا جان بولٹن کی حالیہ باتوں کا مقصد صرف پروپیگنڈا کرنا ہے۔ انہوں نے علاقائی بحران کے سامنے امریکی فوج کی مسلسل شکست کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نہیں لگتا کہ امریکہ ایرانی مسلح افواج کی طاقت اور صلاحیت کو آزمانے کی غلطی کرے گا۔‘‘
امریکہ ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرچکا ہے، تاہم آٹھ ممالک بشمول بھارت کو ایران سے تیل کی خریداری کے لیے استثنا دیا گیا تھا، جو تازہ اقتصادی پابندیوں میں واپس لے لیا گیا ہے۔ اس سے قبل امریکہ نے ایران کی مسلح افواج پاسدارنِ انقلاب کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے خصوصی فوجی دستے ’’پاسدارانِ انقلاب‘‘ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کایہ ایک ایسا اعلان ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نے کسی دوسرے ملک کی فوج کو دہشت گرد تنظیم کہا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ایران کے دستے ’’پاسدارانِ انقلاب‘‘ عالمی سطح پر اس کی دہشت گردی کی مہم پھیلانے کا ایک ذریعہ ہیں۔ تاہم امریکہ کی جانب سے اقتصادی پابندیوں سے ایران کی دشواریوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
2015ء میں امریکی معاہدے کے بعد ایران میں ترقی کی شرح نمو میں اضافہ شروع ہوگیا تھا۔ ایران کی معیشت کا دار و مدار تیل و گیس کی مصنوعات پر زیادہ ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کی جانب سے معاہدے کی ازسر نو تجدید سے انکار کے بعد امریکہ نے پابندیوں میں سختی کر دی، جس سے ایران کو اقتصادی پریشانیوں کو سامنا ہے۔ ملک گیر سطح پر مہنگائی، بے روزگاری اور بیرونِ ملک جنگجو ملیشیاؤں کی مالی امداد، گرتی ہوئی اقتصادی صورتحال اور شرح نمو کی کمی کا سبب بنا ۔ امریکہ نے اقتصادی پابندیوں کی بنا پر ایران کی معیشت کو متاثر کیا اور تجارت تقریباً ختم ہوکر رہ گئی۔ ایران نے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ وہ ایران میں مظاہروں کو حوصلہ افزائی کررہا ہے اور ایران میں بدامنی کو فروغ دینا چاہتا ہے۔
قارئین، یہاں اب اہم مسائل ان 8 ممالک کے لیے پیدا ہوگئے ہیں جو ایران سے تیل برآمد کرنے کے لیے استثنا حاصل کرچکے تھے۔ اس ضمن میں چین، بھارت، جنوبی کوریا، تائیوان، ترکی، یونان اور اٹلی کو استثنا دیا گیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق مئی سے اکتوبر 2018ء کے بعد نومبر2018ء سے مارچ2019ء تک ایران کی تیل کی برآمدات میں واضح فرق پڑا ہے۔
تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2018ء کے شروع میں خام تیل کی پیداوار 3.8 ملین بیرل یومیہ تک پہنچ گئی تھی۔ ایران اس وقت 2.3 ملین بیرل یومیہ فروخت یا برآمد کر رہا تھا۔ ایران کے تیل کی برآمدات کا بڑا حصہ وہ 8 ملک اور خود مختار خطے خرید رہے تھے جن کو اکتوبر میں امریکہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں سے 6 ماہ کا عارضی استثنا دیا گیا تھا۔ ان ملکوں میں چین، انڈیا، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان، ترکی، یونان اور اٹلی شامل تھے۔ مارچ 2019ء تک ایران کے تیل کی برآمدات گِر کر 1.1 ملین بیرل یومیہ تک پہنچ گئی۔ تائیوان، یونان اور اٹلی نے مکمل طور پر ایران سے تیل کی خریداری بند کر دی تھی۔ جب کہ چین اور انڈیا نے بالترتیب 39 فی صد اور47 فی صد کم کر دی تھی۔ امریکی حکام کے مطابق اس سے ایران کو تقریباً دس ارب ڈالر کی آمدن کم ہوئی ہے۔
دوسری طرف امریکی پابندیوں کو چین اور ترکی نے ماننے سے انکار کردیا ہے۔ چین نے واضح طور پر کہا ہے کہ امریکہ کو کوئی حق و اختیار نہیں کہ وہ کسی بھی ملک کو دوسری ملک سے خریداری روکنے کا کہے ۔ ترکی نے بھی واضح کردیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ملک کو ناراض نہیں کرسکتا۔ خام تیل کا خرید ار بھارت رہا ہے۔ پہلے امریکہ نے بھارت کو بھی استثنا دیا تھا۔ تاہم بھارت نے اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے ایران سے خام تیل کی خریداری پر امریکی پابندیوں کو قبول کرلیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وہ اپنی خام تیل کی ضروریات ایران کی بجائے اب دوسرے ممالک کے ذریعے پورا کرے گا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ نئی دہلی حکومت خام تیل کی قومی ضروریات اب دیگر شراکت دار ممالک سے خریدے گئے تیل سے پورا کرے گی۔ بھارت اپنے اقتصادی اور توانائی کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ذرئع تلاش کرتا رہے گا۔ بھارت نے اس سال مارچ میں ختم ہونے والے گذشتہ مالی سال میں تقریباً ڈھائی کروڑ ٹن خام تیل ایران سے خریدا تھا۔
دوسری جانب ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سیّد عباس موسوی نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف امریکی پابندیاں غیر قانونی ہیں۔ لہٰذا اس کی طرف سے دیے گئے استثنا کی کوئی اہمیت نہیں۔ انہوں نے مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پابندیوں کے منفی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران دیگر ممالک سے مشاورت کر رہا ہے، جن میں یورپ کے ممالک بھی شامل ہیں۔ ساتھ ہی ایرانی پارلیمان نے ایک ایسی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی ہے، جس میں امریکی فوج کے تمام دستوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ گو کہ ایران یورپی ممالک سمیت مختلف ذرائع سے امریکہ کا دباؤ کم کرنے کی کوشش کررہا ہے، لیکن جس طرح امریکی جنگی بیڑے اور بمبار ڈویژن نے خلیج فارس میں اپنے قیام کی مدت کو بڑھا دیا ہے، اور امریکی مشیر اسے ایران کے خلاف کسی متوقع کارروائی کے جواب کا جواز قرار دے رہے ہیں، اس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا اثر پورے خطے میں پڑے گا ۔
امریکہ ایران کا تنازعہ اسرائیل کی وجہ سے شروع ہوا ہے اور اسرائیلی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکہ، ایرانی مفادات کے آگے رکاؤٹ بنا ہوا ہے۔ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت بھی کل وقتی ہے۔ اسرائیل کی حمایت میں امریکہ کئی بار اپنی حدود سے تجاوز بھی کرچکا ہے۔ خاص طور پر اسرائیل کے لیے امریکہ کا نرم گوشہ قربت کی بڑے رشتے دنیا کے سامنے کئی بار آشکار کرچکا ہے کہ اسرائیل کے لیے امریکہ دنیا کے کسی بھی ملک کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے وقت سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کردیا تھا۔ تاہم جنرل اسمبلی میں بھاری اکثریت سے شکست کے باوجود امریکہ نے پروا نے نہیں کی، بلکہ اسرائیل کی حمایت نہ کرنے والے ممالک کو سخت پیغام اور فلسطین سمیت کئی ممالک کو دی جانے والی مالی امداد بھی روک دی تھی۔ امریکہ نے یروشلم میں اپنے سفارت خانے کی منتقلی کے وقت بھی فلسطینی اور عالمی برداری کے احتجاج کو نظر انداز کیا اور یروشلم میں اپنا سفارت خانہ منتقل کر دیا۔ اسرائیل نے امریکہ کی شہ پر ہی فلسطینی مسلمانوں پر مظالم ڈھانے میں کسی قسم کے رحم کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کو روا رکھا ہوا ہے۔ گذشتہ دنوں اسرائیلی فضائیہ اور زمینی افواج نے غزہ میں بمباری کی۔ اطلاعات کے مطابق حالیہ لڑائی میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر کیے گئے حملوں میں 2 حاملہ خواتین سمیت 3 خواتین اور 2 شیر خوار بچوں سمیت کُل 25 فلسطینی شہید اور 150 زخمی ہو گئے ہیں، جب کہ تین شہریوں سمیت چار اسرائیلی بھی ان واقعات میں ہلاک ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ مصر اور اقوامِ متحدہ کی ثالثی میں فلسطینی مزاحمتی گروپوں اور اسرائیل کے درمیان فائر بندی کا سمجھوتا طے پا گیا تھا،جس کی تصدیق مصر ی حکام نے بھی کردی تھی۔ تاہم فائر بندی کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ فائربندی کے حوالے سے اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے KAN کی خبر میں دعوی کیا گیا ہے کہ فائر بندی کے سمجھوتے میں حماس اور دیگر مزاحمتی تحریک ’’فلسطین اسلامی جہاد موومنٹ‘‘کی کارروائیوں کی روک تھام، غزہ کی سرحد پر ہفتہ وار مظاہروں میں کمی اور اسرائیل کی طرف آتش گیر غبارے بھیجنے کا خاتمہ جیسی شرائط شامل ہیں۔ تاہم حماس اور اسلامک جہاد کی جانب سے اسرائیل پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ مصر اور اقوام متحدہ کی معاونت سے طے پانے والی جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ تنظیموں کا دعویٰ تھا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کے اطراف رکاوٹیں بڑھا کر آمدورفت محدود کر رہا ہے، جو کہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بھی اسرائیلی کارروائیوں سے غزہ میں ترک نیوز ایجنسی کے دفتر کو نقصان پہنچنے پر سخت ردعمل دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے باوجود ترکی اسرائیل کے ظلم و ستم دنیا کو دکھاتا رہے گا۔

……………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔