سعیدالرحمان

کہا جاتا ہے کہ ماں کی آغوش انسان کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔یہاں سے فراغت کے بعد انسان دوسری درس گاہوں یعنی سکول، کالج اور یونیورسٹی کا رُخ کرتا ہے اور اپنے سینے کو علم کے نور سے منور کرتا ہے۔ اس حوالہ سے ایک دفعہ امیر المومنین حضرت عمرؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپؓ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے؟ تو آپؓ نے جواباً فرمایا:’’کاش میں معلم ہوتا!‘‘
اس طرح شاعرِ مشرق، مفکرِ اسلام علامہ محمد اقبال ؒ معلم کی عظمت کے بارے میں کہتے ہیں کہ استاد دراصل قوم کا محافظ ہے۔ کیوں کہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانااستاد کی ذمہ داری ہے۔
قارئین، سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ وہ کیوں اپنے استاد کی اس درجہ تعظیم کرتا ہے؟ سکندر اعظم نے جواباً کہا کہ اس کے والدین اسے آسمانوں سے زمین پر لے آئے ہیں، جب کہ استاد نے اس کو زمین سے آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچادیا ہے۔
مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک اور خاص کر سوات میں اساتذہ کو پرِ کاہ جتنی اہمیت بھی نہیں دی جاتی۔ ایسے میں فی میل ٹیچرز کا اگر نہ ہی پوچھیں، تو بہتر ہے۔ اساتذہ کے ساتھ ساتھ استانیوں کے ساتھ ناروا سلوک برتا جاتا ہے، جو ناقابل برداشت ہے۔ جیسے چند روز قبل سوات یونی ورسٹی میں ایک خاتون ٹیچر کے ساتھ انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں یونیورسٹی کے ’’شریعہ اینڈ لا ڈیپارٹمنٹ‘‘ کے کچھ شرارتی طلبہ نے اپنی یونیورسٹی کی خاتون ٹیچر کے ساتھ بدتمیزی کی۔ چوں کہ یونیورسٹی بس میں طلبہ کے ساتھ طالبات اور دیگر فی میل ٹیچرز بھی سواری کرتی ہیں، تو بس میں موجود چند تہذیب سے عاری نوجوان طلبہ کے غیر اخلاقی نعرو ں سے طالبات اور فی میل ٹیچرز ذہنی کوفت میں مبتلا ہوئیں۔بس گر چہ ’’جوانوں‘‘ سے کھچا کھچ بھری تھی، مگر مذکورہ مٹھی بھر بد اخلاق طلبہ کو چپ کرانے کے لیے کوئی کھڑا نہیں ہوا۔ اتنے میں ایک دلیر خاتون استانی نے جی کڑا کرکے نہ صرف مذکورہ بدتمیزوں کو چُپ رہنے کا کہا، بلکہ ان کے نامناسب رویے پر آواز بھی اٹھائی۔ ایسے میں مذکورہ ’’نودولتیے‘‘ غصے سے لال پیلے ہوگئے۔ ایک خاتون کے للکارنے پر ان کی ’’غیرت‘‘ جاگ اٹھی اور بس میں وہ شور اٹھا کہ الامان و الحفیظ۔ اس طرح مذکورہ بداخلاق و بدتہذیب طلبہ نے بس سے نیچے اتر کر خاتون کے خلاف گویا ایک طرح سے محاذ کھول دیا۔ آفرین ہے اُس بہادر پشتون خاتون پر کہ انہوں نے پھر بھی ان کاغذ کے شیروں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ وہ گویا ایک چٹان کی طرح ان کے خلاف کھڑی ہوگئی اور ان کو کھری کھری سنائی۔
اس کے بعد تو گویا ایک جنگ سی چھڑ گئی۔ جب مذکورہ بہادر خاتون اپنے ہاسٹل پہنچ گئی۔ تھوڑا آرام کر نے کے بعد وہ اپنے لیے اشیائے ضروریہ خریدنے کے لیے مارکیٹ کی طرف اکیلے نکلی، تو کاغذی شیر اُدھر بھی ان کا پیچھا کرکے مارکیٹ تک آدھمکے اور اُدھر بھی اُن پر آوازے کسنے سے باز نہیں آئے۔ اُس بہادر خاتون نے وہاں بھی اپنی حفاظت کی اور باقاعدہ پولیس کو شکایت کرکے تمام کے تمام نودولتیوں کو بھگانے پر مجبور کر دیا۔ خاتون نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور رجسٹرار کو اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ تحریری طور پر دیا اور ایک قانونی جنگ کے لیے کمر باندھ لی۔ بقولِ شاعر
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
قارئینِ کرام! بحیثیت سوات کے ایک بیٹے کے مجھے اس بہادر خاتون پر فخر ہے۔ شرم آنی چاہیے ان نودولتیوں کو جنہوں نے ایک پشتون معاشرہ میں اتنی گھری ہوئی حرکت کی۔ اس سے ان کی تربیت اور خاندانی لیول کا پتا چلتا ہے۔
اے بہادر خاتون، خاطر جمع رکھیں! سوات کی سول سوسائٹی، ہم لکھاری اور سوات کا ہر پشتون بچہ آپ کے ساتھ ہے۔
قارئین، میں نے مختلف سورسز سے یہ واقعہ کنفر م کیا ہے۔مجھے پتا چلا ہے کہ اس کے علاوہ بھی ’’شریعہ اینڈ لا‘‘ کے کچھ طلبہ کے حوالے سے شکایات سامنے آتی رہتی ہیں، لیکن یونیورسٹی انتظامیہ اس کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدمات اٹھانے سے قاصر ہے۔اس وجہ سے چند روز پہلے یہ شرمناک واقعہ پیش آیا۔ میرا یہاں پر ایک سوا ل ہے، جن نودولتیوں نے یہ بدتمیز ی کی ہے، کیا انہوں نے یہ سوچا بھی ہے کہ اس طرح ان کے گھر والوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے؟ اسے مکافاتِ عمل کہتے ہیں۔
اس حوالہ سے میری یونیورسٹی انتظامیہ کے حکام سے بھی تفصیلی بات ہوئی۔ ان کا رِسپانس مثبت تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کارروائی ہوگی کہ آئندہ آنے والے طلبہ ایسی نیچ حرکت کا سوچیں گے بھی نہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ انکوائری میں اس بات کا تعین ہونا چاہیے کہ ہاسٹل سے جب خاتون ٹیچر شاپنگ کے لیے جا رہی تھی، تو اس وقت ہاسٹل میں یہ لڑکے کس کے ساتھ رابطہ میں تھے کہ انہوں نے خاتون ٹیچر کے باہر جانے کی اطلاع دی؟ یہ اہم نکتہ ہے!
آخر میں میں سواتی عوا م کی طرف سے اس بہادر خاتون کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اور فخر سے کہتا ہوں کہ آپ جیسی خواتین اس ملک کا اور پختونوں کا سرمایا ہیں۔ آپ نے اپنا حق ادا کر دیا، آپ کی وجہ سے دیگر خواتین کو بھی آواز اٹھانے کا حوصلہ ملا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یونی ورسٹی انتظامیہ سے بھی درخواست ہے کہ یہ ادارہ اہلِ سوات کی ملکیت ہے۔ کل ہماری اولاد بھی اس یونیورسٹی میں آئے گی۔طالبات اور استانیوں کے لیے الگ بس کا انتظام ہونا چاہیے، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سامنا نہ ہو۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان نے بھی اس معاملے مداخلت کی ہے اور سوات کے بیٹے ہونے کا ثبوت دیا ہے۔انہوں نے یونی ورسٹی انتظامیہ سے تین دن میں رپورٹ طلب کی ہے۔ساتھ میں میرٹ پر فیصلہ اور خواتین کی مشکلات حل کرنے کی یقین دہانی بھی کی ہے، جو لائقِ تحسین ہے۔
قارئین، ہم سب کو اس ضمن میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وہ ایک مفکر نے کیا پتے کی بات کہی ہے کہ ’’یہ دنیا بُرے لوگوں کی بُرائی سے نہیں بلکہ اچھے لوگوں کی خاموشی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔‘‘
جو خاموش ہے، وہ بھی مجرم ہے!

…………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔